مخالف ہے صبائے نامہ بر کچھ اور کہتی ہے
مخالف ہے صبائے نامہ بر کچھ اور کہتی ہے
ادھر کچھ اور کہتی ہے ادھر کچھ اور کہتی ہے
نہ تو دشمن کے گھر سویا نہ تو دشمن کے گھر جاگا
یہ سب سچ ہے تری صورت مگر کچھ اور کہتی ہے
ادھر مد نظر ان کو چھپانا راز الفت کا
ادھر کمبخت میری چشم تر کچھ اور کہتی ہے
تصور دل میں شاید آ گیا ہے گھر کے جانے کا
یہ انگڑائی تری وقت سحر کچھ اور کہتی ہے
نہیں معلوم مضطرؔ مر گیا یا سانس باقی ہے
الٰہی خیر شکل چارہ گر کچھ اور کہتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |