مخلوق ہوں یا خالق مخلوق نما ہوں
مخلوق ہوں یا خالق مخلوق نما ہوں
معلوم نہیں مجھ کو کہ میں کون ہوں کیا ہوں
ہوں شاہد تنزیہہ کے رخسار کا پردہ
یا خود ہی مشاہد ہوں کہ پردے میں چھپا ہوں
ہے مجھ سے گریبان گل صبح معطر
میں عطر نسیم چمن و باد صبا ہوں
گوش شنوا ہو تو مرے رمز کو سمجھے
حق یہ ہے کہ میں ساز حقیقت کی نوا ہوں
ہستی کو مری ہستیٔ عالم نہ سمجھنا
ہوں ہست تو پر ہستیٔ عالم سے جدا ہوں
ہوں سینۂ عشاق میں سوز جگر و دل
اور دیدۂ معشوقاں میں کیا ناز و ادا ہوں
یہ کیا ہے کہ مجھ پر مرا عقدہ نہیں کھلتا
ہر چند کہ خود عقدہ و خود عقدہ کشا ہوں
اے مصحفیؔ شانیں ہیں مری جلوہ گری میں
ہر رنگ میں میں مظہر آثار خدا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |