مخمس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ (III)

مخمس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓ
by میر تقی میر
314964مخمس ترجیع بند در مدح حضرت علیؓمیر تقی میر

پارسا ہیں جو جواں پیر ہدیٰ کہتے ہیں
جو ولایت رکھے ہیں شاہ ولا کہتے ہیں
سالک مسلک دل راہ نما کہتے ہیں
ایک مولا کہیں ہیں ایک خدا کہتے ہیں
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

آفتاب فلک عز و علا تو ہی تھا
چہرہ آراے زمیں اور سما تو ہی تھا
جانشینی پیمبرؐ کے سزا تو ہی تھا
قالب خاکی کے پردے میں خدا تو ہی تھا
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

ہے تری قدر سے بے ختم رسلؐ کون آگاہ
حبذا شان تری صل علیٰ تیری جاہ
زور سے تیرے اڑے کوہ بسان پر کاہ
وہ ثبات اس قد و قامت پہ یہ قدرت اللہ
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

تجھ کو وہ خلوتی راز نہاں پاتے ہیں
جس کو اب خلق میں ہر جاے عیاں پاتے ہیں
افسر و تخت ترے در سے شہاں پاتے ہیں
سر ترے سجدے کا شائستہ کہاں پاتے ہیں
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

پاشکستوں کی ہوئی کام روائی تجھ سے
بستہ کاروں کی ہوئی عقدہ کشائی تجھ سے
گھٹتی آئیں کی گئی ٹک نہ اٹھائی تجھ سے
رہ گئی دین محمدؐ کی بڑائی تجھ سے
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

خشمگینی تری دشمن کے سر آفت لائی
عمرو و عنتر نے سنبھلنے کی نہ فرصت پائی
روکشی مہد میں اژدر سے نہ ٹک بن آئی
زور و قدرت نے ترے قدرت حق دکھلائی
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

شور و ہنگامہ تھا کیسا ہی مٹایا تونے
صبح محشر تئیں فتنے کو سلایا تونے
در خیبر کو دو انگشت سے ڈھایا تونے
کاڑھ خورشید کو دوبارہ دکھایا تونے
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

عالم کون و فساد آکے کیا تونے پاک
دہر گلزار ہوا جھڑ گئے خار و خاشاک
دیو سرکش ہوئے آوازہ ترا سن کے ہلاک
پردۂ قاف تلک پہنچی ترے زور کی دھاک
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

تھے قوی پنجہ ترے عہد میں سب جان سے سیر
بھیڑ بکری کی طرح خوف سے رہتے تھے دلیر
ہر زبردست زمانے کا رہا تیرا زیر
تونے سلماں کے لیے توڑ دیا پنجۂ شیر
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

تجھ سے پایا نہ گیا بعد نبیؐ فاضل تر
ہے فضیلت تری قرآن سے ثابت سب پر
قرب کیا تیرا بیاں کیجیے اے فخر بشر
جس جگہ تو ہے تو وھاں جلتے ہیں جبریل کے پر
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

دوش پر رحمت عالم کے رکھا تونے پا
خانۂ حق سے دیا شرک کی صورت کو مٹا
عالم خاکی میں تھا مصلحتاً جلوہ نما
عرش اعظم سے بھی تھی ورنہ پرے تیری جا
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

اے ترا مرتبہ بالاتر فہم و ادراک
ایک رتبے کے تئیں پہنچی ترے جلوے سے خاک
ہیں ترے شوق میں سرگشتہ شب و روز افلاک
پر کہاں عالم خاک اور کہاں عالم پاک
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

اپنے اسرار کا تو آپ ہی کچھ دانا ہے
ورنہ کن نے تجھے جوں چاہیے پہچانا ہے
ایک فرقے نے تجھے روح قدس مانا ہے
ایک نے ذات مقدس تجھی کو جانا ہے
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

شان و شوکت تری کیا کہہ سکے عاجزتقریر
یعنی مداح ترا کیونکے ہو الکن ہے میرؔ
زیب دیتی ہے تجھی کو شہی کل امیر
تیں فقیروں کے تئیں بخش دیے تاج و سریر
یا علی جو تجھے کہتے ہیں بجا کہتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.