مخمس در مدح حضرت علیؓ (I)

مخمس در مدح حضرت علیؓ
by میر تقی میر
314953مخمس در مدح حضرت علیؓمیر تقی میر

اے مرتفع نشین علی العرش استوا
وے غیر ماسواے خدا خویش مصطفےٰؐ
تو تھا کہ تونے دوش نبی پر قدم رکھا
بت توڑ توڑ شرک کی صورت دی سب مٹا
لایا بہ زور عرصے میں یکتائی خدا

رکھتے ہیں تجھ سے چشم کرم صاحب نظر
افضل ہوئی سبب سے ترے خلقت بشر
تو مجمع کمال ہے تو مصدر ہنر
ہے مورد قبول دعا تیرے گھر کا در
ہے مولد شریف ترا خانۂ خدا

ہر مو زبان ہو تو کریں وصف ہم ترا
کرتا رہا ہمیشہ مسیحائی دم ترا
رونق ہوئی جہاں میں جو آیا قدم ترا
برپا نہ ہووے روز جزا گر علم ترا
خورشید حشر سائے میں کس کے ہو پھر کھڑا

تو وہ ہے نام لیتے ترا بھیجئے درود
گذرے اگر تو دل میں تو کر بیٹھیے سجود
شخص کرم کی وقت دہش تیرے کیا نمود
تو گرم جود ہووے تو پھر کیا بھلا ہے جود
تیری سخا کے روبرو کیا چیز ہے سخا

آگہ ہیں تیری قدر سے کاہے کو بے تہاں
جانیں ہیں فخر یاں کی گدائی کے تیں شہاں
تجھ سا کریم عرصے میں آفاق کے کہاں
ہے در ترا وہ کان عطا و کرم جہاں
ہوتی ہے سیر آن کے حرص شہ و گدا

مقدور والے عہد کے گھٹتی سہا کیے
افسانے تیرے جود کے مردم کہا کیے
دریا گہر کے ہاتھ سے تیرے بہا کیے
احساں پہ تیرے سینکڑوں احساں رہا کیے
ہمت نے تیری ہمت عالی سے کچھ لیا

دکھلاوے چند چرخ نشیب و فراز کو
پیوند کر زمیں کا غم جاں گداز کو
کر ناز ایک لطف سے میرے نیاز کو
تو وہ امام ہے کہ جب آوے نماز کو
پیشینیاں تمام کریں تجھ سے اقتدا

ہر اک کو اس تقدس ذاتی سے کیا خبر
پہنچانیں تجھ کو کیونکے عزیزان بے بصر
نے تصفیہ دلوں کو نہ باریکی نظر
پر علم ہورہے گا کہ تھا حق ہی جلوہ گر
پردہ یہ بیچ سے بشریت کا جب اٹھا

جاگہ ہر ایک دل میں تری ہی ولا کی تھی
تیرا ظہور آرزو ارض و سما کی تھی
تجھ سے شہان عہد کو نسبت گدا کی تھی
قدرت جو دیکھی تیری سو قدرت خدا کی تھی
گر آسماں حریف ہوا خاک میں ملا

زورآوری جہاں میں تری داستاں ہوئی
عرصے کے پہلوانوں کی قدرت عیاں ہوئی
کتنوں کی جان سامنے تیرے رواں ہوئی
کتنوں کی دور بیٹھے ہی خاطرنشاں ہوئی
سیسر تری کماں کی نہ کوئی اٹھا سکا

فرضاً ہوا غلام سے تیرے اگر بگاڑ
دشمن سب آئے سامنے ہر ایک جوں پہاڑ
مارا نہ ایک دو ہی کو میدان میں پچھاڑ
جس کی کمر میں ہاتھ چلایا لیا اکھاڑ
جس کی طرف کو آن جھکا پھر جھکا دیا

آیا ڈپٹ کے گھوڑے کو جس وقت بھیڑ چیر
خرگوش تھے بہیر کے گویا جوان و پیر
سرگرم رزم جب کہ ہوا کہہ کے گیر گیر
اس کی کماں کے ساتھ تھا پیغام مرگ تیر
تلوار اس کے ہاتھ میں تھا نامۂ فنا

بہتیرے کوہ و دشت کو بھاگے کڈھب گئے
بہتیرے زخم تن پہ اٹھا جاں بلب گئے
تھے برج سے جوان سو ہیبت سے دب گئے
جوڑا ادھر سے تیر ادھر سہم سب گئے
چمکی ادھر سے تیغ ادھر سر ہوا جدا

ہے کون دادرس جو کہوں دل کے اس سے بھید
جور فلک سے چھاتی میں سب پڑ گئے ہیں چھید
امید ہے کہ پہنچے ترے لطف کی نوید
کم بخت بھی پھرا نہ ترے در سے ناامید
ازبسکہ وقف کرتے ہیں واں طالع رسا

ہر شب یہ دل خفا ہے یونہیں عمر ہوگئی
ہر روز اک جفا ہے یونہیں عمر ہوگئی
جی پر غرض بلا ہے یونہیں عمر ہوگئی
ہر شام غم غذا ہے یونہیں عمر ہوگئی
ہر صبح خون دل ہے مجھے آب ناشتا

آشفتہ کوہ و دشت میں مدت پھرا ہوں میں
آوارہ گرد بادیۂ ابتلا ہوں میں
جوں گردباد خاک میں یکسر ملا ہوں میں
یعنی برہنگی سے تو ٹک بچ رہا ہوں میں
تہ گرد کی جو بیٹھے ہے تن پر سو ہے قبا

اس شہر میں ہوں دیر سے آوارہ بے وطن
مرنا بنا نہ اس سے کہ پیدا نہ تھا کفن
القصہ حال بد سے کروں تاکجا سخن
احوال میرؔ تجھ پہ ہویدا ہے من و عن
اظہار اس پہ ہے یہ طبیعت کا مقتضا

ہوں مبتلاے رنج و بلا سینہ چاک ہوں
پھوڑا سا پک رہا ہوں سبھی دردناک ہوں
دور آستاں سے تیرے کہاں تک ہلاک ہوں
یہ جی میں آرزو ہے کہ جب مر کے خاک ہوں
لاوے نجف کی اور اڑاتی ہوئی صبا

امداد کر کہ پہنچوں ترے آستاں تلک
لے جاوے اشتیاق مجھے کھینچ واں تلک
ہر در پہ اضطراب پھراوے کہاں تلک
یوں اتفاق ہوکہ کروں صرف جاں تلک
مقصد یہی ہے دل کا یہی جی کا مدعا

یوں کشتہ چند مرتبہ و جاہ کا رہوں
کب تک ہلاک مطلب دلخواہ کا رہوں
جی چاہتا ہے خاک ہو اس راہ کا رہوں
پامال تیرے زائر درگاہ کا رہوں
تاج شرف ہو سر پہ مرے عاقبت کو تا

بے اختیار روؤں ہوں ہر صبح اور شام
یعنی کہ شوق در کا ترے دل کو ہے تمام
مقصد اسی کو جانوں ہوں سمجھا یہی ہوں کام
اے جدپاک حضرت موسیٰ رضا امام
اپنی تو آرزو ہے یہ آگے تری رضا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.