مخمس در مدح حضرت علیؓ (II)

مخمس در مدح حضرت علیؓ
by میر تقی میر
314954مخمس در مدح حضرت علیؓمیر تقی میر

زور و ثبات و تاب و تواں مرتضےٰ علی
امیدگاہ خرد و کلاں مرتضےٰ علی
مقصود خلق و خواہش جاں مرتضےٰ علی
ذکر روان و ورد زباں مرتضےٰ علی
جو کچھ کہو سو اپنے ہیں ہاں مرتضےٰ علی

اس کی ولا ہے باعث بہبود کائنات
اس کی ولا ہی شرط پڑی ہے پئے نجات
کیا کیا نمود کرتے ہیں اتنے عجائبات
وا ہو جو چشم دل تو تماشا ہے اس کی ذات
یکتاے عرصۂ دوجہاں مرتضےٰ علی

ہرچند کام ایسی جگہ کیا کرے سمجھ
اس راز کو سمجھ جو سکے تو ارے سمجھ
یعنی نہ ذات پاک سے اتنا ورے سمجھ
عقل نخست سے بھی اسے کچھ پرے سمجھ
ہے آں سوے خیال و گماں مرتضےٰ علی

موجود اس کے ہونے سے روشن جہاں ہوا
اس پردے میں جو تھا پس پردہ عیاں ہوا
فرمان شاہ بحروبر ان پر رواں ہوا
پیر زمانہ دیدۂ عالم جواں ہوا
چشم و چراغ کون و مکاں مرتضےٰ علی

شخصیت ایسی کس کی تھی کس کو تھا یہ شرف
اس قدر سے تھا کون بغیر از شہ نجف
اللہ رے زور کوئی نہ اس کا ہوا طرف
دریاے موج خیز تھا اس کے کرم کا کف
ابن عم رسول زماں مرتضےٰ علی

ہرچند ہے یہ عرصہ ہمیشہ سے پرغبار
یاران رفتہ کے بھی تردد ہیں یادگار
لیکن کہاں یہ حربے کہاں ایسے مردکار
نکلی نہ ویسی تیغ کہ جیسی تھی ذوالفقار
دیکھا نہ تھا وہ جیسا جواں مرتضےٰ علی

پامال راہ اس کے ہیں سرہاے پرغرور
نزدیک اہل عقل کے رتبہ ہے اس کا دور
شائستۂ سجود سمجھتے ہیں ذی شعور
ہے جملہ تن منزہ و سر تا قدم ہے نور
اس بے نشاں سے دے ہے نشاں مرتضےٰ علی

آیا ہے یہ جو شاہد غیبی شہود میں
لایا ہے اس کو شوق ہی اس کا وجود میں
انداز کیسے کیسے ہیں اس کی نمود میں
گہ سر فرو نہ لاوے گہے ہو سجود میں
ہے خلوتی راز نہاں مرتضےٰ علی

کب گفتگو انھوں سے ہے جن میں ہے بے تہی
کاہے کو اس طریق پہ ہیں محو گمرہی
ختم رسلؐ کو قدر سے ہے اس کی آگہی
قربان اس کے در کے گدا پر سے کی شہی
خورشید چرخ عزت و شاں مرتضےٰ علی

بارے چھپا ہو کوئی تو اس کو جتایئے
جو بے بصر ہیں ان کے تئیں کچھ سجھایئے
خورشید کو اشاروں سے کب تک بتایئے
روشن ہیں سب پہ باتیں عبث کیا بنایئے
حاجت نہیں بیاں ہے عیاں مرتضےٰ علی

وہ جانے جس کو اور کسو سے کچھ ہووے کام
شام و سحر یہاں تو وظیفہ اسی کا نام
میلان دل ہے میرؔ غرض اس طرف تمام
سرمایہ دوجہاں کا ہے اپنا یہی امام
یاں مرتضےٰ علی ہے وہاں مرتضےٰ علی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.