مخمس در مدح حضرت علیؓ (V)
اے نائب مصاحب ذی القوۃ المتیں
وے دست زور خلوتی قدرت آستیں
چاہے تو ایک کردے ابھی آسماں زمیں
ٹھوکر لگے تری تو اڑے کوہ آہنیں
پایا نہ جائے جیسے پر کاہ پھر کہیں
تو ہے کہ تیری قدر نہ آئے بیان میں
قدرت تری نہ گذرے کسو کے گمان میں
شانیں ہزار قسم ہیں اک تیری شان میں
شہرت ہے تیرے زور کی دونوں جہان میں
نکلا نہ شہربند عدم سے ترا قریں
غیب و شہود دونوں میں مشہود ہے تو تو
ہستی ہماری وہم ہے موجود ہے تو تو
حاصل کہ دوجہان کا مقصود ہے تو تو
مسجود تجھ کو جانے ہیں معبود ہے تو تو
ناجی ہیں وے ہی لوگ جنھوں کا ہے یہ یقیں
احوال خوش انھوں کا جنھیں تجھ سے ہے ولا
اعدا تو آسماں نے دیے خاک میں ملا
آئینہ ہے کہ دین کو تجھ سے ہوئی جلا
برپا وہی رہے گا جو تجھ تک ہے سلسلہ
یاروں نے جتنی رسمیں بٹھائیں تھیں اٹھ چلیں
فتنے کو تیرے عہد میں سوتے گذر گئی
آشوب کی خطر سے ترے سدھ بسر گئی
آفت کہاں کہ کب کی کنارہ بھی کر گئی
آوازہ تیرا سن کے بلا جیسے مر گئی
یوں مٹ گئے فساد کہ مذکور بھی نہیں
داور ہوا جو تو تو ملی بیکسوں کی داد
تلوار مارنے سے ترے مٹ گئے فساد
اٹھے نہ گرد زندقہ و کفر پر عناد
زنار ٹوٹے مہرے جلے بت گئے بہ باد
برہم ہوئے گھڑی میں ہزاروں برس کے دیں
ہنگامے گرم یاروں کے سب سرد ہوگئے
چہرے منافقوں کے ووہیں زرد ہوگئے
سر در نقاب خاک بڑے مرد ہوگئے
جن سے تھا پر غبار جہاں گرد ہوگئے
گلوں میں بکریوں کے چھٹے شیر خشمگیں
بھاگے پھرے پلنگ نمر ہانپنے لگے
روکش جو ہونے کو تھے سو منھ ڈھانپنے لگے
رستم ہو بے حواس زمیں ناپنے لگے
ہلنے لگے پہاڑ فلک کانپنے لگے
رکھا گیا جو پیٹھ پہ مرکب کے تیرے زیں
تلوار تیری برق تھی آنکھیں جھپک گئیں
گھوڑوں کی باگیں ہاتھ سے سب کے اچک گئیں
بھاگیں جو اضطرار سے فوجیں بہک گئیں
لاشوں کی سیر کرتے ہوئے آنکھیں تھک گئیں
لوہو کی ہر چہار طرف ندیاں بہیں
نعرہ کیا ہے تو جو کبھو ہاتھ جھاڑ کر
نکلا ہے پردہ گوش فلک کا بھی پھاڑ کر
قوت جو تونے کی ہے کبھو پاؤں گاڑ کر
کوہ گراں کو پھینک دیا ہے اکھاڑ کر
پہنچا ہے ملک قدس تلک شور آفریں
رکھتا ہے پائمال حوادث یہ آسماں
جاگہ نہیں رہی کہ کریں داد جا کے واں
ہو دستگیر لطف ترا تو ملے اماں
تیری طرف نہ آویں تو پھر جاویں ہم کہاں
اے عرش تخت دادگر لامکاں مکیں
تو ہے کہ تجھ کو کہتے ہیں حلال مشکلات
تو ہے کہ حلقہ زن ہے ترے در پہ کائنات
تو ہے کہ تجھ سے دید میں آئے عجائبات
احسنت تیری قدرت و رحمت ترا ثبات
آگے سے تیرے سینکڑوں بھیڑیں سرک گئیں
قدغن ہوا جو رفع کا بدعت کی ایک بار
پردوں میں مطربوں نے رکھے دف طمانچے مار
نغمہ یہ سن کے یاروں نے چھیڑا کبھو نہ تار
نالہ ہوا نہ بلبل طنبور سے دوچار
آواز نے کی بند ہوئی ہوگئی حزیں
تردامنوں کے دیکھے تو لب خشک ہوگئے
احوال میکدہ پہ بہت ابر رو گئے
معتاد مے جنھوں کی تھی سب جان کھو گئے
مخمور کھینچ کھینچ کے خمیازہ سو گئے
کیا کیا خرابیاں نہ خرابات پر رہیں
لا شکل اس کی دل میں وہی مصطفےٰ کو دیکھ
اس رخ کا کر تصور نور خدا کو دیکھ
رنگینی جمالت شاہ ولا کو دیکھ
نرگس نے غش کیا تھا کہیں اس ادا کو دیکھ
گلشن میں دلبروں کی نہ پھر انکھڑیاں ملیں
عاجزنوازی تیری سے ہو مشت خاک زر
برسے گدا پہ ابر کرم سے ترے گہر
جور فلک نے سیر کیا جی سے رحم کر
مہماں ترے سماط پہ ہے خلق ہر سحر
حاتم یک آشمال ہے یاں معن ریزہ چیں
جس دل کو ہو نہ شوق ترا ہوجیو گداز
جس چشم کو نہ میل ہو تیرا نہ ہوجو باز
جو سر ترا خیال رکھے رہیو بے نیاز
سجدے سے تیرے در کے جو ہوتی ہو سرفراز
مسجود ہوجو صبح سعادت کی وہ جبیں
اہل نظر سے دیکھنا اودھر کا ہے عجب
آنکھوں سے تیری رہ نہ چلے واقف ادب
کس کو تھی یہ بزرگی و کس کا تھا یہ حسب
یہ قدر تھی تری مرے مولا ہوا تو جب
رونق فزاے کعبہ محمدؐ کا جانشیں
کیا کہیے تیرے قرب سے اے سایۂ الٰہ
بے دانشی سے کچھ کہے کوئی دروں سیاہ
اپنی تو تجھ پہ پڑتی ہے جا کر وہیں نگاہ
فہم و گمان و وہم کو جس جا نہیں ہے راہ
ہے چشم شوق عینک شفاف دوربیں
جس کو نہیں ہے تیری محبت کا کچھ خیال
افسوس اس کی زندگی و واے اس کا حال
یاں اس کے سر وبال ہے واں رنج یا نکال
تجھ سے نہ رکھے بندگی ہے کفر اور ضلال
تیری ولا ہے داخل ایمان مومنیں
میرؔ شکستہ حال نہایت ہے تنگ اب
شوریدہ سر سے مارے ہے لے لے کے سنگ اب
ہر آن اس کو آپ سے رہتی ہے جنگ اب
دست تہی سے خلق جہاں کا ہے ننگ اب
خوش مت کر آہ اس سے زیادہ نہ کر غمیں
افسوس ہے مدیح ترا اتنا خستہ حال
ہر لحظہ اک عذاب نیا ہردم اک وبال
تھے اس چمن میں جو روش سبزہ پائمال
یک دم میں تیرے ابر کرم نے کیے نہال
برسے انھوں پہ اوس کی جاگہ در ثمیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |