مخمس در مدح حضرت علیؓ (VI)

مخمس در مدح حضرت علیؓ
by میر تقی میر
314958مخمس در مدح حضرت علیؓمیر تقی میر

ہراس روز محشر کیا محمد مصطفےٰؐ بس ہے
کرم خصلت وفاسیرت علی مرتضےٰ بس ہے
شفیع جرم سوز سینۂ خیرالنسا بس ہے
نہ ٹکڑے دل کے کر مسموم امام مجتبےٰ بس ہے
لہو مت رو شہید تشنہ کام کربلا بس ہے

رکھے کوئی توقع تو رکھے آل پیمبر سے
طلب ہووے کسی کو کچھ تو ہو اولاد حیدر سے
امانت چاہنا پھر لطف ہے یاران دیگر سے
دل اپنا جمع کر دور قمر کے شور اور شر سے
بہت ہے گرچہ ہنگامہ ولے زین العبا بس ہے

ولا باقر کی فرض عین ہے حیدرپرستی میں
جپا کر نام کو اس کے تو ہشیاری و مستی میں
غرض رہ محو اس کا دشت میں ہو تو کہ بستی میں
عجب ہے نونہال اک سایہ دار اس باغ ہستی میں
کرم اس کا پئے ہر شخص بے برگ و نوا بس ہے

محبت چاہیے صادق جناب پاک جعفر میں
اسی کا شوق دل میں ہو اسی کا شور ہو سر میں
وہی یاں بھی نشاں ہے تھا جو کچھ ساقی کوثر میں
عنایت کی اسی سے چشم رکھ آشوب محشر میں
بلا صد رنگ ہووے کیوں نہ ایک اس کی ولا بس ہے

رکھے کاظم کو جو سر پر غم و غصہ سے کیا اس کو
نہ دیکھے یہ امام دیں بلا میں مبتلا اس کو
بیک چشمک زدن حاصل ہو ایسا مرتبہ اس کو
کہ رکھے کفش جس کے سر پہ دیکھو بادشا اس کو
توجہ گونہ اے مولا پئے ہر مدعا بس ہے

جسے اے مجلس آرایان دیں بہرہ ہے ایماں سے
اسے اک بندگی خاص ہے شاہ خراساں سے
نگہ کی چشم سے آتی ہے خلق ایران و توراں سے
گذر جاتے ہیں اس کے نام پر جنس خوش جاں سے
جو سودا اس سے بن جائے تو ہو راضی رضا بس ہے

جو وہ دن ہو کہ نکلے آفتاب اس روز پچھم سے
موکل درمیاں لاویں سخن جنت جہنم سے
کریں پرسش بد و نیک عمل کی خلق عالم سے
مخاطب ہم کسو سے ہوں نہ یارب نے کوئی ہم سے
تقی متقی ہم کو امام اتقیا بس ہے

تقی پاک کا آکر علم جس وقت برپا ہو
الٰہی ہم سیہ کاروں کی اس کے سائے میں جا ہو
وہ حامی لطف سے ہو تو کچھ اپنا کام اچھا ہو
وگرنہ زشتی اعمال سے کیا جانیے کیا ہو
ووں ہی ہووے تو بس کیا اور یوں ہووے تو کیا بس ہے

نہ ہو لشکرکشی سے غم کی اے دل اس قدر درہم
کرے گا عسکری انبوہ اس اندوہ کا برہم
عدو مجروح ہے اس کا احبا کا ہے وہ مرہم
رہیں گے ناامید رستگاری اس سے کیونکر ہم
وسیلہ ہم گنہگاروں کا وہ روز جزا بس ہے

اگرچہ اشک آنکھوں میں لبوں پر آہ رہتے ہیں
ولے مستغنیانہ ہرگہ و بے گاہ رہتے ہیں
کبھو ہیں شہر میں جاکر کبھو درگاہ رہتے ہیں
کرم پر مہدی ہادی کے ہم گمراہ رہتے ہیں
ہمیں اس وادی پرخوف میں وہ رہنما بس ہے

کہاں تک بت پرستی میں جفا و جور کا سہنا
کہاں تک آنکھ سے رخسار پر ہر دم لہو بہنا
کہن سالی میں کس کا چاہیے ہے ہم کو کچھ کہنا
دیے قشقہ صنم خانے میں کب تک روز و شب رہنا
گیا وقت ہوس کعبہ کو چلیے اب خدا بس ہے

نہیں مشتاق ہم کچھ مال کے اسباب کے زر کے
نہ اچھے فرش کے طالب نہ پاکیزہ کسو گھر کے
تجھے درویش سب کہتے ہیں لوگ ایدھر کے اودھر کے
ہمارا حشر ہووے مر گئے پر ساتھ حیدر کے
یہی کہہ میرؔ تو بھی حق میں اپنے یہ دعا بس ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.