مدت سے ہوں میں سر خوش صہبائے شاعری
مدت سے ہوں میں سر خوش صہبائے شاعری
ناداں ہے جس کو مجھ سے ہے دعوائے شاعری
میں لکھنؤ میں زمزمہ سنجان شہر کو
برسوں دکھا چکا ہوں تماشائے شاعری
پھبتا نہیں ہے بزم امیران دہر میں
شاعر کو میرے سامنے غوغائے شاعری
اک طرفہ خر سے کام پڑا ہے مجھے کہ ہائے
سمجھے ہے آپ کو وہ مسیحائے شاعری
ہے شاعروں کی اب کے زمانے میں یہ معاش
پھرتے ہیں بیچتے ہوئے کالائے شاعری
لیتا نہیں جو مول کوئی مفت بھی اسے
خفت اٹھا کے آتے ہیں گھر وائے شاعری
اے مصحفیؔ ز گوشۂ خلوت بروں خرام
خالی ست از برائے تو خود جائے شاعری
ہر سفلہ را زبان و بیان تو کے رسد
آرے توئی فغانی و بابائے شاعری
مجنوں منم چرا دگرے رنج می برد
در حصۂ من آمدہ لیلائے شاعری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |