مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا
ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں
دل پر داغ کو کیوں کر ہے عشق اس زلف پیچاں کا
کسی خورشید رو کو جذب دل نے آج کھینچا ہے
کہ نور صبح صادق ہے غبار اپنے بیاباں کا
چمکنا برق کا لازم پڑا ہے ابر باراں میں
تصور چاہیئے رونے میں اس کے روئے خنداں کا
دیا میرے جنازے کو جو کاندھا اس پری رو نے
گماں ہے تختۂ تابوت پر تخت سلیماں کا
کسی سے دل نہ اس وحشت سرا میں میں نے اٹکایا
نہ الجھا خار سے دامن کبھی میرے بیاباں کا
تہہ شمشیر قاتل کس قدر بشاش تھا ناسخؔ
کہ عالم ہر دہان زخم پر ہے روئے خنداں کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |