مرا مضموں سوار توسن طبع رواں ہو کر

مرا مضموں سوار توسن طبع رواں ہو کر
by پنڈت ہری چند اختر

مرا مضموں سوار توسن طبع رواں ہو کر
زمین شعر پر پھرتا ہے گویا آسماں ہو کر

کھٹک جاتے ہیں چشم برق میں میرا نشاں ہو کر
غضب ڈھاتے ہیں یعنی چند تنکے آشیاں ہو کر

سن اے جوش جنوں تقلید مجنوں کی نہیں اچھی
مبادا ہم بھی رہ جائیں کسی دن داستاں ہو کر

دما دم شعبدے ہم کو دکھاتا ہے کوئی جلوہ
کہیں شیخ حرم ہو کر کہیں پیر مغاں ہو کر

ان آنکھوں سے بہار باغ دنیا دینے والو
یہ آنکھیں رنگ لائیں گی کسی دن خوں فشاں ہو کر

اجی کیا شمع کیا پروانہ دونوں جل بجھے آخر
کوئی آتش فشاں ہو کر کوئی آتش بجاں ہو کر

خدا محفوظ رکھے یہ حسیں دل لے ہی لیتے ہیں
کسی پر مہرباں ہو کر کسی سے سرگراں ہو کر

نہ پایا اور کچھ بھی جز خدا کعبے میں اے اخترؔ
بہت نادم ہوئے ہم بت کدے سے بد گماں ہو کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse