مرتے دم نام ترا لب کے جو آ جائے قریب

مرتے دم نام ترا لب کے جو آ جائے قریب
by عبدالرحمان احسان دہلوی
302149مرتے دم نام ترا لب کے جو آ جائے قریبعبدالرحمان احسان دہلوی

مرتے دم نام ترا لب کے جو آ جائے قریب
جی کو ٹھنڈک ہو تپ غم نہ مرے آئے قریب

بوسہ مانگوں تو کہیں مجھ سے یہ بلوا کے قریب
کس کا منہ ہے جو مرے منہ کے وہ منہ لائے قریب

ہاتھ دوڑاؤں نہ کیوں جبکہ وہ یوں آئے قریب
پاؤں پھیلاؤں نہ کیوں پاؤں جو پھیلائے قریب

پاس آؤں تو کہے پاس ادب بھی ہے ضرور
دور جاؤں تو وہاں جائے تقاضائے قریب

مجھ کو اے پیر مغاں محتسب ناہنجار
قرب محشر ہے کہ بے قربی سے بلوائے قریب

غم دوری سے ترے کوچے کے رویا عاشق
واں سے جب روضۂ رضوان اسے لائے قریب

میری بیداری سے اے دولت بیدار ہو کیا
بخت جاگیں جو مجھے اپنے تو بلوائے قریب

میرے نالوں سے نہ دن چین نہ شب کو ہے قرار
مرگ کے پہنچے ہیں اب تو مرے ہم سایے قریب

ایسی مجلس سے اگر رہیے بعید اولیٰ ہے
دل دماغ اپنا تو وہ اور یہ غوغائے قریب

پاس جاؤں تو مچل کر کہے چل یاں سے دور
دور بیٹھوں تو گھڑک کر مجھے فرمائے قریب

عشق کے پیچ میں ہوں چاہئے ہمدم پس مرگ
عشق پیچاں ہی مری قبر کے لگوائے قریب

مشک و صندل ہو ترے رنگ سے بالوں ہم سر
غصہ دل کو مرے کس طرح نہ آ جائے قریب

کچھ ردیف اب کی بڑھا قافیہ احساںؔ تو بدل
پھر قریب ایسے بٹھا تجھ کو وہ بٹھلائے قریب


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.