مرغ زیرک عقل کا ہے عشق کا صیاد شوخ
مرغ زیرک عقل کا ہے عشق کا صیاد شوخ
عقل ہے بسیار شیریں عشق کا فرہاد شوخ
عقل اپنے دام میں کرتا ہے کل عالم کو قید
بند اور زنجیر سوں نت عشق ہے آزاد شوخ
عقل بوجھا عاشقاں سب واجب التعذیر ہیں
قاتل عقل و فہم ہے عشق کا جلاد شوخ
عقل کو سب ملک میں ہے داد انصاف و عدل
کیا نہایت عشق کا ہے بادشہ بیداد شوخ
فہم اور فکرت میں اپنی عقل گر فولاد ہے
آب کرتا ہے گلا کر عشق کا حداد شوخ
عقل کے میزاں میں آیا بحر اور بر کا حساب
نہیں مگر آیا عدد میں عشق کا تعداد شوخ
عقل سوں جانے گزر تب عاشقاں پاتے ہیں وصل
اے علیمؔ اللہ عجب ہے عشق کا ارشاد شوخ
This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication. |