مرنا مریض عشق کے حق میں شفا ہوا
مرنا مریض عشق کے حق میں شفا ہوا
اچھا ہوا نجات ملی کیا برا ہوا
راہ عدم کی منزل اول میں کیا ہوا
جو آیا خاک ڈال کے مجھ پر ہوا ہوا
نشتر کو ڈوبنے نہ دیا اے رگ جنوں
کیا اس کا ایک قطرۂ خوں میں بھلا ہوا
جس دل کے داغ سے ہمیں تھی چشم روشنی
رہتا ہے وہ تو شام ہی سے خود بجھا ہوا
بس ایسی چارہ سازی سے اے شوقؔ باز آئے
جس سے کہ درد اور بھی دل میں سوا ہوا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |