مری وفا کا ترا لطف بھی جواب نہیں

مری وفا کا ترا لطف بھی جواب نہیں
by مجاز لکھنوی

مری وفا کا ترا لطف بھی جواب نہیں
مرے شباب کی قیمت ترا شباب نہیں

یہ ماہتاب نہیں ہے کہ آفتاب نہیں
سبھی ہے حسن مگر عشق کا جواب نہیں

مری نگاہ میں جلوے ہیں جلوے ہی جلوے
یہاں حجاب نہیں ہے یہاں نقاب نہیں

جنوں بھی حد سے سوا شوق بھی ہے حد سے سوا
یہ بات کیا ہے کہ میں مورد عتاب نہیں

یہاں تو حسن کا دل بھی ہے غم سے صد پارہ
میں کامیاب نہیں وہ بھی کامیاب نہیں

یہاں تو رات کی بیداریاں مسلم ہیں
مگر وہاں بھی حسیں انکھڑیوں میں خواب نہیں

نہ پوچھئے مری دنیا کو میری دنیا میں
خود آفتاب بھی ذرہ ہے آفتاب نہیں

سب ہی ہیں مے کدۂ دہر میں خرد والے
کوئی خراب نہیں ہے کوئی خراب نہیں

مجازؔ کس کو میں سمجھاؤں کوئی کیا سمجھے
کہ کامیاب محبت بھی کامیاب نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse