مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں

مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں
by مضطر خیرآبادی

مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں
تمہاری چاہ میں جینے کے لالے پڑتے جاتے ہیں

ادھر اس کی شرارت جس نے غم کی آگ سلگا دی
ادھر میرا کلیجہ جس میں چھالے پڑتے جاتے ہیں

مرے ان کے تعلق پر کوئی اب کچھ نہیں کہتا
خدا کا شکر سب کے منہ میں تالے پڑتے جاتے ہیں

غم ناکامیٔ کوشش سے حالت بگڑی جاتی ہے
کلیجے میں یہاں بے آگ چھالے پڑتے جاتے ہیں

ہمارا درد آہ دل مزا دیتا ہے اڑ اڑ کر
تمہارے چاند سے چہرے پہ ہالے پڑتے جاتے ہیں

مسیحا جا رہا ہے دوڑ کر آواز دو مضطرؔ
کہ دل کو دیکھتا جا جس میں چھالے پڑتے جاتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse