مرے دل بیچ نقش نازنیں ہے

مرے دل بیچ نقش نازنیں ہے
by فائز دہلوی

مرے دل بیچ نقش نازنیں ہے
مگر یہ دل نہیں یارو نگیں ہے

کمر پر تیری اس کا دل ہوا محو
ترا عاشق بہت باریک بیں ہے

جو کہیے اس کے حق میں کم ہے بے شک
پری ہے حور ہے روح الامیں ہے

غلام اس کے ہیں سارے اب سریجن
نگر میں حسن کے کرسی نشیں ہے

نہیں اب جگ میں ویسا اور پیتم
سبی خوش صورتاں سوں نازنیں ہے

مجھے ہے موشگافی میں مہارت
جو نت دل محو خط عنبریں ہے

نظر کر لطف کی اے شاہ خوباں
ترا فائزؔ غلام کم تریں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse