مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
مر کر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
ہم جان دے کے دل کو سنبھالے ہوئے تو ہیں
بے زار ہو نہ جائے کہیں زندگی سے دل
تاثیر سے خفا مرے نالے ہوئے تو ہیں
رستے ہیں اب کے سال کہ بہتے ہیں دیکھیے
پھر فصل گل میں زخم دل آلے ہوئے تو ہیں
ارماں جو یوں نہیں تو نکلتے ہیں کس طرح
یعنی ہمارے دل سے نکالے ہوئے تو ہیں
ہاں درد عشق ان پہ کرم کی نظر رہے
صبر و قرار تیرے حوالے ہوئے تو ہیں
یہ صحبتیں بھی دیکھیے لاتی ہیں رنگ کیا
مہمان خار پاؤں کے چھالے ہوئے تو ہیں
کیا جانیے کہ حشر ہو کیا صبح حشر کا
بیدار تیرے دیکھنے والے ہوئے تو ہیں
فانیؔ ترے عمل ہمہ تن جبر ہی سہی
سانچے میں اختیار کے ڈھالے ہوئے تو ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |