مر کر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
مر کر مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
یعنی وہ اضطراب کی صورت نہیں رہی
ہر لمحۂ حیات رہا وقف کار شوق
مرنے کی عمر بھر مجھے فرصت نہیں رہی
ایک نالۂ خموش مسلسل ہے اور ہم
یادش بخیر ضبط کی طاقت نہیں رہی
وہ عہد دل فریبئ تاثیر اب کہاں
مدت سے آہ آہ کی حسرت نہیں رہی
دل اور ہوائے سلسلۂ جنبانئ نشاط
کیوں پاس وضع غم تجھے غیرت نہیں رہی
ہر بے گناہ سے وعدۂ بخشش ہے روز حشر
گویا گناہ کی بھی ضرورت نہیں رہی
اے عرض شوق مژدہ کہ دل چاک ہو گیا
تکلیف پردہ دارئ حسرت نہیں رہی
پتھرا گئی تھی آنکھ مگر بند تو نہ تھی
اب یہ بھی انتظار کی صورت نہیں رہی
عبرت نے بیکسی کا نشاں بھی مٹا دیا
اڑتی تھی جس پہ خاک وہ تربت نہیں رہی
محشر میں بھی وہ عہد وفا سے مکر گئے
جس کی خوشی تھی اب وہ قیامت نہیں رہی
کس منہ سے غم کے ضبط کا دعویٰ کرے کوئی
طاقت بقدر حسرت راحت نہیں رہی
فانیؔ امید مرگ نے بھی دے دیا جواب
جینے کی ہجر میں کوئی صورت نہیں رہی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |