مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قید حیات
مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے
اثر عشق تغافل بھی ہے بیداد بھی ہے
وہی تقصیر ہے تعزیر بدل جاتی ہے
کہتے کہتے مرا افسانہ گلہ ہوتا ہے
دیکھتے دیکھتے تقدیر بدل جاتی ہے
روز ہے درد محبت کا نرالا انداز
روز دل میں تری تصویر بدل جاتی ہے
گھر میں رہتا ہے ترے دم سے اجالا ہی کچھ اور
مہ و خورشید کی تنویر بدل جاتی ہے
غم نصیبوں میں ہے فانیؔ غم دنیا ہو کہ عشق
دل کی تقدیر سے تدبیر بدل جاتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |