مر گئے اے واہ ان کی ناز برداری میں ہم
مر گئے اے واہ ان کی ناز برداری میں ہم
دل کے ہاتھوں سے پڑے کیسی گرفتاری میں ہم
سب پہ روشن ہے ہماری سوزش دل بزم میں
شمع ساں جلتے ہیں اپنی گرم بازاری میں ہم
یاد میں ہے تیرے دم کی آمد و شد پر خیال
بے خبر سب سے ہیں اس دم کی خبرداری میں ہم
جب ہنسایا گردش گردوں نے ہم کو شکل گل
مثل شبنم ہیں ہمیشہ گریہ و زاری میں ہم
چشم و دل بینا ہے اپنے روز و شب اے مردماں
گرچہ سوتے ہیں بظاہر پر ہیں بیداری میں ہم
دوش پر رخت سفر باندھے ہے کیا غنچہ صبا
دیکھتے ہیں سب کو یاں جیسے کہ تیاری میں ہم
کب تلک بے دید سے یا رب رکھیں چشم وفا
لگ رہے ہیں آج کل تو دل کی غم خواری میں ہم
دیکھ کر آئینہ کیا کہتا ہے یارو اب وہ شوخ
ماہ سے صد چند بہتر ہیں اداداری میں ہم
اے ظفرؔ لکھ تو غزل بحر و قوافی پھیر کر
خامۂ در ریز سے ہیں اب گہر باری میں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |