مزدور
by سیماب اکبرآبادی

گرد چہرے پر پسینے میں جبیں ڈوبی ہوئی
آنسوؤں میں کہنیوں تک آستیں ڈوبی ہوئی

پیٹھ پر نا قابل برداشت اک بار گراں
ضعف سے لرزی ہوئی سارے بدن کی جھریاں

ہڈیوں میں تیز چلنے سے چٹخنے کی صدا
درد میں ڈوبی ہوئی مجروح ٹخنے کی صدا

پاؤں مٹی کی تہوں میں میل سے چکٹے ہوئے
ایک بدبو دار میلا چیتھڑا باندھے ہوئے

جا رہا ہے جانور کی طرح گھبراتا ہوا
ہانپتا گرتا لرزتا ٹھوکریں کھاتا ہوا

مضمحل واماندگی سے اور فاقوں سے نڈھال
چار پیسے کی توقع سارے کنبے کا خیال

اپنے ہم جنسوں کی بے مہری سے مایوس و ملول
صفحۂ ہستی پر اک سطر غلط حرف فضول

اپنی خلقت کو گناہوں کی سزا سمجھے ہوئے
آدمی ہونے کو لعنت اور بلا سمجھے ہوئے

زندگی کو ناگوار اک سانحہ جانے ہوئے
بزم کبر و ناز میں فرض اپنا پہچانے ہوئے

راستے میں راہگیروں کی نظر سے بے نیاز
شورش ماتم سے نغموں کے اثر سے بے نیاز

اس کے دل تک زندگی کی روشنی جاتی نہیں
بھول کر بھی اس کے ہونٹوں پر ہنسی آتی نہیں

ایک لمحہ بھی نہیں فکر معیشت سے نجات
صبح ہو یا شام ہے تاریک اس کی کائنات

دیکھ اے قارون اعظم دیکھ اے سرمایہ دار
نا مرادی کا مرقع بے کسی کا شاہکار

گو ہے تیری ہی طرح انساں مگر مقہور ہے
دیکھ اے دولت کے اندھے سانپ یہ مزدور ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse