مزہ گناہ کا جب تھا کہ با وضو کرتے
مزہ گناہ کا جب تھا کہ با وضو کرتے
بتوں کو سجدہ بھی کرتے تو قبلہ رو کرتے
کبھی نہ پرورش نخل آرزو کرتے
نمو سے پہلے جو اندیشۂ نمو کرتے
سنیں نہ دل سے تو پھر کیا پڑی تھی خاروں کو
کہ گل کو محرم انجام رنگ و بو کرتے
گناہ تھا بھی تو کیسا گناہ بے لذت
قفس میں بیٹھ کے کیا یاد رنگ و بو کرتے
بہانہ چاہتی تھی موت بس نہ تھا اپنا
کہ میزبانیٔ مہمان حیلہ جو کرتے
دلیل راہ دل شب چراغ تھا تنہا
بلند و پست میں گزری ہے جستجو کرتے
ازل سے جو کشش مرکزی کے تھے پابند
ہوا کی طرح وہ کیا سیر چار سو کرتے
فلک نے بھول بھلیوں میں ڈال رکھا تھا
ہم ان کو ڈھونڈتے یا اپنی جستجو کرتے
اسیر حال نہ مردوں میں ہیں نہ زندوں میں
زبان کٹتی ہے آپس میں گفتگو کرتے
پناہ ملتی نہ امید بے وفا کو کہیں
ہوس نصیب اگر ترک آرزو کرتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |