مستمنداں کو ستایا نہ کرو

مستمنداں کو ستایا نہ کرو
by فائز دہلوی

مستمنداں کو ستایا نہ کرو
بات کو ہم سے درایا نہ کرو

دل شکنجے میں نہ ڈالو میرا
زلف کو گوندھ بنایا نہ کرو

حسن بے ساختہ بھاتا ہے مجھے
سرمہ انکھیاں میں لگایا نہ کرو

تم سے مجھ دل کو بہت ہے امید
مجھ سے مسکیں کو کڑھایا نہ کرو

بے دلاں سوں نہ پھرا دو مکھڑا
ہم سے تم آنکھ چرایا نہ کرو

مخلص اپنے کو نہ مارو ناحق
حق اخلاص بھلایا نہ کرو

عشق میں فائزؔ شیدا ممتاز
اس کوں سب ساتھ ملایا نہ کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse