مست نگاہ ناز کا ارماں نکالیے
مست نگاہ ناز کا ارماں نکالیے
بے خود بنا کے بزم سے اے جاں نکالیے
حسن نظارہ سوز کی ہیں لن ترانیاں
ارمان دید موسی عمراں نکالیے
پنہاں ہے کفر عشق میں ایمان عاشقاں
ظلمت سے نور چشمۂ حیواں نکالیے
دم بھر میں دھوئے جائیں گے سب داغ معصیت
یک قطرہ اشک تجربہ ساماں نکالیے
توحید میں ہے نقش دو رنگی حجاب ذات
ذوق نظر کا حوصلہ اے جاں نکالیے
جب جلوہ ہائے وادیٔ ایمن نظر میں ہوں
خاطر سے وہم روضۂ رضواں نکالیے
دل کو بنا کے نقطۂ پرکار عافیت
پائے طلب بہ ہمت مرداں نکالیے
ذکر خفی ازل سے ہے ورد دل و زباں
شک ہے تو تن سے تار رگ جاں نکالیے
کونین عین علم میں ہے جلوہ گاہ حسن
جیب خرد سے عینک عرفاں نکالیے
ہر جام میں ہے عکس رخ یار جلوہ گر
اے دل سبیل صحبت رنداں نکالیے
مقبولیت سخن کی ہے ساحرؔ جو رنگ بزم
رنگ عیار طبع سخنداں نکالیے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |