مسدس در نعت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم

مسدس در نعت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم
by میر تقی میر
314974مسدس در نعت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلممیر تقی میر

جرم کی کھو شرمگینی یا رسول
اور خاطر کی حزینی یا رسول
کھینچوں ہوں نقصان دینی یا رسول
تیری رحمت ہے یقینی یا رسول
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

لطف تیرا عام ہے کر مرحمت
ہے کرم سے تیرے چشم مکرمت
مجرم عاجز ہوں کر ٹک تقویت
تو ہے صاحب تجھ سے ہے یہ مسئلت
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

کیا سیہ کاری نے منھ کالا کیا
بات کرنے کا نہیں کچھ منھ رہا
رحم کر خاک مذلت سے اٹھا
میرے عفو جرم کی تخصیص کیا
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

اب ٹھہرتا ٹک نہیں پاے ثبات
دستگیری کر کہ پاؤں میں نجات
جرم کیا ہیں میری کتنی مشکلات
ہے کفایت ایک تیری التفات
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

دہر زیر سایۂ لطف عمیم
خلق سب وابستۂ خلق عظیم
تجھ سے جویاے کرم عاصم اثیم
سخت حاجت مند ہیں ہم تو کریم
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

ہو رہے ہیں ہم جو دوزخ کے حطب
سر پہ یہ اعمال لائے ہیں غضب
رکھتے ہیں چشم عنایت تجھ سے سب
تجھ سوا کس سے کہیں احوال اب
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

نیک و بد تیرے ثناخوان ہمم
لطف تیرا آرزوبخش امم
ملتفت ہو تو تو کاہے کا ہے غم
تو رحیم اور مستحق رحم ہم
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

روؤں ہوں شرم گنہ سے زار زار
بے عنایت کچھ نہیں اسلوب کار
دل کو جب ہوتا ہے آکر اضطرار
زیر لب کہتا ہوں یہ میں بار بار
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

سبز برپا ہوگا جب تیرا نشاں
آفتاب حشر میں بہر اماں
ہووے گی انواع خلقت جمع واں
کیوں نہ ہو سائے میں اس کے دوجہاں
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

روسیاہی جرم سے ہے بیشتر
روسفیدوں میں خجل مجھ کو نہ کر
ایک کیا آنکھیں ہیں میری ہی ادھر
تجھ سے راجی بے بصر اہل نظر
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

کچھ بھی جو ہیں واقف راز و نیاز
عام تجھ انعام پر کر چشم باز
شعر یہ مشہور سب وے دل گداز
پڑھتے ہیں جاے دعا بعد از نماز
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول

جب تلک تاثیر کا تھا کچھ گماں
گہ قرآں خواں میرؔ تھے گہ سبحہ خواں
وقت یکساں تو نہیں اے دوستاں
اب یہی ہے ہر زماں ورد زباں
رحمۃ للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.