مس سیمیں بدن
ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد
اس خطا پر سن رہا ہوں طعنہ ہائے دل خراش
کوئی کہتا ہے کہ بس اس نے بگاڑی نسل قوم
کوئی کہتا ہے کہ یہ ہے بد خصال و بد معاش
دل میں کچھ انصاف کرتا ہی نہیں کوئی بزرگ
ہو کے اب مجبور خود اس راز کو کرتا ہوں فاش
ہوتی تھی تاکید لندن جاؤ انگریزی پڑھو
قوم انگلش سے ملو سیکھو وہی وضع تراش
جگمگاتے ہوٹلوں کا جا کے نظارہ کرو
سوپ و کری کے مزے لو چھوڑ کر یخنی و آش
لیڈیوں سے مل کے دیکھو ان کے انداز و طریق
ہال میں ناچو کلب میں جاکے کھیلو ان سے تاش
بادۂ تہذیب یورپ کے چڑھاؤ خم کے خم
ایشیا کے شیشۂ تقویٰ کو کر دو پاش پاش
جب عمل اس پر کیا پریوں کا سایہ ہو گیا
جس سے تھا دل کی حرارت کو سراسر انتعاش
سامنے تھیں لیڈیاں زہرہ وش و جادو نظر
یاں جوانی کی امنگ اور ان کو عاشق کی تلاش
اس کی چتون سحر آگیں اس کی باتیں دل ربا
چال اس کی فتنہ خیز اس کی نگاہیں برق پاش
وہ فروغ آتش رخ جس کے آگے آفتاب
اس طرح جیسے کہ پیش شمع پروانے کی لاش
جب یہ صورت تھی تو ممکن تھا کہ اک برق بلا
دست سیمیں کو بڑھاتی اور میں کہتا دور باش؟
دونوں جانب تھا رگوں میں جوش خون فتنہ زا
دل ہی تھا آخر نہیں تھی برف کی یہ کوئی قاش
بار بار آتا ہے اکبرؔ میرے دل میں یہ خیال
حضرت سید سے جاکر عرض کرتا کوئی کاش
'درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
'باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش'
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |