مصیبت جس سے زائل ہو رہی سامان کر دے گا

مصیبت جس سے زائل ہو رہی سامان کر دے گا
by شاد عظیم آبادی

مصیبت جس سے زائل ہو رہی سامان کر دے گا
نہ گھبرانا خدا سب مشکلیں آسان کر دے گا

خرابات جہاں میں کون ہے دل سوز ساقی سا
اگر ترچھٹ بھی دینا ہے تو تجھ کو چھان کر دے گا

قناعت کی بھی دولت ہو تو استغنا نہیں لازم
جسے تو نفع سمجھا ہے یہی نقصان کر دے گا

جگہ دل میں نہ دے شوق نموداری بری شے ہے
یہی چسکا تجھے برباد اے نادان کر دے گا

کہوں گا آج سے میں صاحب اعجاز ناصح کو
اگر میرے دل مضطر کا اطمینان کر دے گا

تمناؤں کی مہمانی تصور کے حوالے کر
کہ جو ساماں مناسب ہے وہی سامان کر دے گا

متاع بے بہا سے کم نہ جان اے چشم اشکوں کو
یہی رونا ترا خالی تری دوکان کر دے گا

کوئی گر سلطنت بھی دے تو واپس کر نہ لے اے دل
سبک ہر طرف تجھ کو غیر کا احسان کر دے گا

کہے دیتا ہوں قاتل لے خبر جاں باز کی اپنے
فنا شوق شہادت میں کسی دن جان کر دے گا

تری رو پوشیاں اے حسن کب بیکار جائیں گی
یہی پردہ عیاں عالم میں تیری شان کر دے گا

یقیں کر لے کہ خود وہ جلوہ گر پردے میں ہے ورنہ
یہی ظالم گماں تیرا تجھے حیران کر دے گا

غزل سے کیا مراد اے شادؔ ہے ارباب معنی کی
کسی دن تصفیہ اس کا مرا دیوان کر دے گا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse