مطمئن اپنے یقیں پر اگر انساں ہو جائے
مطمئن اپنے یقیں پر اگر انساں ہو جائے
سو حجابوں میں جو پنہاں ہے نمایاں ہو جائے
اس طرح قرب ترا اور بھی آساں ہو جائے
میرا ایک ایک نفس کاش رگ جاں ہو جائے
وہ کبھی صحن چمن میں جو خراماں ہو جائے
غنچہ بالیدہ ہو اتنا کہ گلستاں ہو جائے
عشق کا کوئی نتیجہ تو ہو اچھا کہ برا
زیست مشکل ہے تو مرنا مرا آساں ہو جائے
جان لے ناز اگر مرتبۂ عجز و نیاز
حسن سو جان سے خود عشق کا خواہاں ہو جائے
میرے ہی دم سے ہے آباد جنوں خانۂ عشق
میں نہ ہوں قید تو بربادی زنداں ہو جائے
ہے ترے حسن کا نظارہ وہ حیرت افزا
دیکھ لے چشم تصور بھی تو حیراں ہو جائے
دید ہو بات نہ ہو آنکھ ملے دل نہ ملے
ایک دن کوئی تو پورا مرا ارماں ہو جائے
میں اگر اشک ندامت کے جواہر بھر لوں
توشۂ حشر مرا گوشۂ داماں ہو جائے
لے کے دل ترک جفا پر نہیں راضی تو مجھے
ہے یہ منظور کہ وہ جان کا خواہاں ہو جائے
اپنی محفل میں بٹھا لو نہ سنو کچھ نہ کہو
کم سے کم ایک دن احسنؔ پہ یہ احساں ہو جائے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |