معاملات عشق

معاملات عشق
by میر تقی میر
313553معاملات عشقمیر تقی میر

کچھ حقیقت نہ پوچھو کیا ہے عشق
حق اگر سمجھو تو خدا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو کہیں ہے کچھ
عشق تھا جو رسول ہو آیا
ان نے پیغام عشق پہنچایا
عشق حق ہے کہیں نبی ہے کہیں
ہے محمدؐ کہیں علیؓ ہے کہیں
عشق عالی جناب رکھتا ہے
جبرئیل و کتاب رکھتا ہے
عشق حاضر ہے عشق غائب ہے
عشق ہی مظہر عجائب ہے
عشق کیا کیا مصیبتیں لایا
روز کو رات کرکے دکھلایا
عشق میں لوگ زہر کھاتے ہیں
عشق سے رنگ سبز پاتے ہیں
عشق سر تا قدم امید ہوا
زیر تیغ ستم شہید ہوا
مجھ سے مت پوچھ یہ کنھیں ہے عشق
عشق ہے ان ہی کو جنھیں ہے عشق
عشق سے رنگ زرد ہوتا ہے
عشق سے دل میں درد ہوتا ہے
رہتے ہیں عشق ہی میں مژگاں تر
یہیں دیکھی ہیں آنکھیں آتے بھر
عشق ہی کا خراب ہے کنعاں
عشق ہے ایک خانہ آباداں
عشق لایا ہے آفتیں کیا کیا
اس سے آئیں قیامتیں کیا کیا
قیس کیا رنج کھینچ کھینچ موا
سر پہ فرہاد کے سنا جو ہوا
عشق نے چھاتیاں جلائی ہیں
آگیں کس کس جگہ لگائی ہیں
عشق میں ایک جی کو کھو بیٹھے
ایک آنکھوں کو روکے رو بیٹھے
ایکوں کا جیب تا بہ دامن چاک
ایک ڈالے ہے سر کے اوپر خاک
شان ارفع ہیں جن کی خوار ہیں یاں
عقل والے جنوں شعار ہیں یاں
خستۂ عشق کچھ نہ میرؔ ہوئے
بادشہ عشق میں فقیر ہوئے
کوئی دل تنگ ہو کنویں میں گرا
کوئی ڈوبا کوئی گیا نہ پھرا
جب پتنگا ہوا تھا اس سے داغ
تب دیا جی کو ان نے پیش چراغ
عشق کی فاختہ ستم کش ہے
عشق سے عندلیب دم کش ہے
عشق باعث ہوا وطن چھوٹے
مرغ پکڑے گئے چمن چھوٹے
مایۂ درد و رنج سب ہے عشق
متصل رونے کا سبب ہے عشق
پڑ گئے دل جگر میں آخر چھید
کچھ نہ پایا کنھوں نے عشق کا بھید
اپنی تیغ ستم جو اینچے عشق
جامے بہتوں کے خوں میں کھینچے عشق
عشق سے قمری ہے حریف سرو
مہ سے آنکھیں لڑا رہا ہے تدرو
عشق کے دل فگار سارے ہیں
ان نے کیا کیا جوان مارے ہیں
کہیں حق ناحق ان نے خون کیے
کہیں سر پر کھڑا ہے تیغ لیے
کوئی محو گزاف ہیں اس سے
کہیں میدان صاف ہیں اس سے
اس سے یک جمع نے لیا ہے جوگ
ایک فرقے کا ہے یہ جی کا روگ
ایک کے لب پہ آہ ہے اس سے
ایک کا دن سیاہ ہے اس سے
ایک کا شیوہ اس سے نالہ کشی
ایک کو بے دمی ہے جیسے غشی
ایک ناشاد زندگانی سے
ایکوں کے دل گداز پانی سے
ایک کے پھول گل پہ نالے ہیں
ایک کے جان ہی کے لالے ہیں
ایک نے کوہ اس سے توڑ دیے
ایک تنکا کر ان نے چھوڑ دیے
چپ لگی ہے کسو کو اس کے سبب
بند رہتے نہیں کسو کے لب
کوئی باتیں کرے ہے شوق کے ساتھ
کوئی چپکا ہوا ہے ذوق کے ساتھ
ہے تواجد کسی کو حال کہیں
کہیں نقصان ہے کمال کہیں
ایک محو لباس عریانی
ایک سرگرم دامن افشانی
کسو کا ذکر کوئی ذاکر ہے
کوئی صابر ہے کوئی شاکر ہے
کہیں وسعت کہیں ہے تنگ اوقات
عشق کے ہیں گے مختلف حالات
سیر قابل ہیں اس کے دیوانے
سننے کے گوں ہیں اس کے افسانے
وصل میں جن کے دل رہیں بے جا
فصل ہو تو انھوں کا حال ہو کیا
اس بلا سے مجھے بھی کام ہوا
عاشق زار میرا نام ہوا
قصہ میرا بھی سانحہ ہے عجب
کس پہ گذرا ہے یہ ستم یہ غضب

معاملۂ اول

ایک صاحب سے جی لگا میرا
ان کے عشووں نے دل ٹھگا میرا
ابتدا میں تو یہ رہی صحبت
نام سے ان کے تھی مجھے الفت
خوبی ان کی جو سب کہا کرتے
گوش میرے ادھر رہا کرتے
بخت برگشتہ پھر جو یار ہوئے
اک طرح مجھ سے وے دوچار ہوئے
کیا کہوں طرز دیکھنے کی آہ
دل جگر سے گذر گئی وہ نگاہ
چپکے منھ ان کا دیکھ رہتا میں
جی میں کیا کیا یہ کچھ نہ کہتا میں
وے تو ہر چند اپنے طور کے تھے
پر تصرف میں ایک اور کے تھے
کرتے ظاہر میں احتیاط بہت
مجھ سے بھی رکھتے اختلاط بہت
بات کی طرز میری ہی بھاتی
میری آزردگی نہ خوش آتی
پیار چتون سے پھر نکلنے لگا
دیکھنا دل کو میرے ملنے لگا
کہیں دیکھوں تو بات دیر کہیں
بے دماغ اور بے گمان رہیں
کچھ کچھ آزار مجھ کو دینے لگے
قسم اقسام مجھ سے لینے لگے
میں جو کھاتا قسم تو ہو برہم
کہنے لگتے کہ کیا گدا کی قسم
ایک دو دن میں بعد رفع ملال
لطف سے پوچھتے کہو کچھ حال
جو گذرتی تھی مجھ پہ میں کہتا
یا کوئی اشک آنکھ سے بہتا
دیکھ کر روتے آپ بھی روتے
دل دہی کرتے جب تلک سوتے

معاملۂ دوم

ایک مدت تلک یہ صحبت تھی
کبھو الفت کبھو یہ کلفت تھی
رفتہ رفتہ سلوک بیچ آیا
ہاتھ پاؤں کو اپنے لگوایا
گاہ بے گاہ پاؤں پھیلاتے
میری آنکھوں سے تلوے ملواتے
چل کر آتے تھے جب کبھو ایدھر
پاؤں رکھتے تھے میری آنکھوں پر
دیکھنے میں تو پائمالی تھی
حسن سے چال یہ نہ خالی تھی
جلتی چھاتی تو ہوتا میں سائل
کہ ٹک اے سرو ہو ادھر مائل
کف پا رکھیے یاں تو احساں ہے
تیرے پاؤں تلے مری جاں ہے
ہنس کے سینے پہ پاؤں رکھ دیتے
دل مرا یوں بھی ہاتھ میں لیتے
کیا کہوں کیسا قد بالا ہے
قالب آرزو میں ڈھالا ہے
ایک جاگہ سے ایک جاگہ خوب
پیکر نازک اس کے سب محبوب
موے سر ایسے جی بھی کریے نیاز
بل ہی کھایا کرے یہ عمر دراز
اس کے کاکل سے حرف سر نہ کرو
کاکل صبح پر نظر نہ کرو
کچھ بھی نسبت ہے تم کو سودا ہے
کالے کوسوں کی بات کا کیا ہے
اس کی زلفوں میں دل گئے نہ پھرے
رہے سنبل کے پیچ پاچ دھرے
اس جبیں سے ہے دل کی کب جاذب
صبح صادق کے دعوے ہیں کاذب
ویسی بھوئیں کشیدہ بھی ہیں کہیں
یہ کمانیں کسو سے کھنچتی نہیں
پھری پلکوں کی اور سب کی نگاہ
چشم پر میری تیری چشم سیاہ
کہوں چتون کے دیکھنے کے طور
اس قیامت پہ وہ قیامت اور
سطح رخسار آئینے سے صاف
جو نہ ٹھہرے نگہ تو رکھیے معاف
لطف بینی کا فہم ہے دشوار
ایک باریک بینی ہے درکار
کیا جھمکتا ہے ہائے رنگ قبول
جیسے مکھڑا گلاب کا سا پھول
ہے دہن تنگی سے سخن کوتاہ
کچھ نکلتی نہیں سخن کی راہ
اس سے گل کیا چنے کوئی ہمدم
غنچۂ ناشگفتہ سے بھی کم
برگ گل سے زباں ہے نازک تر
پھول جھڑتے ہیں بات بات اوپر
کیا کہوں کم ہیں ایسے شیریں گو
وہ زباں کاش میرے منھ میں ہو
دم بدم سوے گوش اشارۂ صبح
گوہر گوش یا ستارۂ صبح
جب بناگوش ان نے دکھلایا
صبح کا سا سماں نظر آیا
ان لبوں کا مزا لیا سو بھانت
تس کے اوپر ہمارا بھی ہے دانت
تم نہ گل برگ و لعل ناب کہو
بات جب تک نہ ٹھہرے چپکے رہو
کوئی جاں بخش یوں کہے سو کہے
ہم تو مرتے ہی ان لبوں پہ رہے
کنج لب آرزوے جان و دل
آگے چلنا نگاہ کو مشکل
ان لبوں سے جو کوئی کام رکھے
قند و مصری کو کیوں نہ نام رکھے
جو حلاوت انھوں کی کہیے اب
ہم دگر سے جدا نہ ہوویں لب
جب وے کھاتے ہیں بیڑۂ پاں کو
رو نہیں دیتے لعل و مرجاں کو
ایسی ہوتی نہیں ہے سرخ لبی
رنگ گویا ٹپک پڑے گا ابھی
ہو تبسم سے لعل کا دل خوں
ہنستے دیکھا تھا سو مجھے ہے جنوں
نہیں دیکھے مسی ملے دنداں
برق ابر سیہ ہے تب خنداں
کیسے کیسے چمکتی ہے بے تہ
جگ ہنسائی کرے ہے اپنی یہ
بو اگر کیجے اس زنخ کا سیب
جائے سر سے جنون کا آسیب
رہے گردن میں ان کی میرا ہاتھ
یہ تو یارب ہے میرے جی کے ساتھ
بس چلے تو گلے لگا ہی رہوں
تیغ سے پھر جدا کریں تو نہ ہوں
اس میں ہرچند جی کا نقصاں ہے
مدعا اختلاط چسپاں ہے
خوش و پرکار کب پری ان سی
اور ہو تو کہاں ہے ہم جنسی
دیکھے ازبس برآمدہ سینے
ایسا معلوم دل جو یوں چھینے
کیا نظرگاہ کی کروں خوبی
نظریں اٹھتی نہیں یہ محبوبی
شانہ و دست و ساعد و بازو
دلکشی میں تمام یک پہلو
اس کے تو پہلو سے میں ہوکے جدا
درد پہلو سے تنگ دل ہی رہا
ہائے اس سے خدا جدا نہ کرے
دور اس سے جیوں خدا نہ کرے
یوں نہیں سرخ اس کی ہر انگشت
ڈوبی ہیں میرے خون میں یک مشت
وہ کف دست راحت جاں ہے
کاش سینے پہ رکھ دے غم یاں ہے
کیا بیاں خوبی شکم کو کرے
دیکھنے سے کبھو نہ پیٹ بھرے
صدر کے ناحیے سے لے تا ناف
چپ کی جاگہ ہے کیونکے کہیے صاف
اس سے پھر آگے غنچۂ گل ہے
یاں سخن بابت تامل ہے
پردے میں بھی جو کچھ کہا جاوے
آپ سے تو نہ ٹک رہا جاوے
گئی نظروں سے وہ کمر باریک
ہو نہ آنکھوں میں کیوں جہاں تاریک
اور کیا دل زدے کو بات آوے
کہیں یارب شتاب ہاتھ آوے
نازکی اس میاں کی کیا کہیے
بنے تو ہاتھوں میں لیے رہیے
ٹک اگر لچکے تو قیامت ہے
پھر قیامت تلک ندامت ہے
کیوں پڑی ران پر نظر تا ساق
اس بن اب زندگی ہوئی ہے شاق
پاے جاناں سے گفتگو ہے اب
خاک میں ملنے کا یہی ہے ڈھب
وہ قدم کاش فرق سر پر ہو
ساق سیمیں مری کمر پر ہو
وہ کف پا قریب ہو میرے
ٹھوکر اس کی نصیب ہو میرے
پنڈلی نازک ہے شاخ سنبل کی
پشت پا پنکھڑی سی ہے گل کی
یوں نصیبوں سے ہو حنا کا ناؤں
ورنہ ڈوبے ہیں میرے خوں سے پاؤں
ناخن پا حنائی ہیں ایسے
برگ گل پاے سرو ہوں جیسے
ہو خراماں تو اس طرف نگہیں
گل کفش اس کی لوگ دیکھ رہیں
گل و بلبل سبھی تماشائی
آگئے جس طرف بہار آئی
رنگ رفتار دیکھ مجنوں ہو
طرز گفتار جیسے افسوں ہو
سر سے پاؤں تلک وہ محبوبی
ساتھ ان خوبیوں کے یہ خوبی
کہ بہت دل ہے آشناے رحم
دردمندوں کو جانے جاے رحم
اب جو ثابت ہوئی ہے میری چاہ
اس کو مدنظر ہے مجھ سے نباہ
طعن و تعریض بیچ میں آئے
کچھ نہ خاطر میں وہ مجھے لائے
رستے میں اک طرف وفا کے لیے
چلے جاتے ہیں مجھ پہ لطف کیے
نہیں آزار کی رواداری
مہرورزی ہے یا وفاداری
پر جو معشوقی آب و گل میں ہے
چھیڑ رکھنے کا شوق دل میں ہے
میں کروں تو کہیں خوش آتا ہے
تیرا آزار جی سے بھاتا ہے
خواہ ناخواہ وہ نہیں منظور
کہ رہے دل شدہ مرا رنجور
یہ بھی شوخی سے ہے گہے گاہے
پر اس انداز سے کہ جی چاہے

معاملۂ سوم

ایک دن فرش پر تھا میرا ہاتھ
باتیں کرتے تھے وے بھی میرے ساتھ
پاؤں سے ایک انگلی مل ڈالی
لطف سے درد وہ نہ تھا خالی
درد سے کی جو میں نے بے تابی
دست نازک سے دیر تک دابی
یاد آتے ہیں ایسے لطف جو اب
گذرے ہیں جان غم زدہ پہ غضب
تن بدن دیکھ جی نہ رہتا تھا
میں جو گستاخ ہوکے کہتا تھا
کہ یہ جاگہ تم اس فقیر کو دو
متبسم ہو کہتے وے یہ لو
یہ بھی کیا کیا خیال رکھتے ہیں
آرزوے محال رکھتے ہیں
پھر گھڑی بھر میں کہتے ہو نہ ملول
مار کھانے کی باتیں سب ہیں قبول
جب سلوک ان کا یاد آتا ہے
کیا کہوں جی ہی بھول جاتا ہے

معاملۂ چہارم

ایک دن پان وے چباتے تھے
سرخ لب ان کے مجھ کو بھاتے تھے
کہہ اٹھا میں اگر اگال مجھے
منھ سے دو تو کرو نہال مجھے
بولے یوں ہی ہے میں کہا ہاں سچ
جھوٹا کھاتے ہیں میٹھے کی لالچ
ہنس کے اس وقت مجھ کو ٹال دیا
پھر اسی رنگ سے اگال دیا
ایسی صدرنگ مہربانی تھی
تب سیہ رو کی زندگانی تھی
اب کے سے رنگ گر فلک لاتا
خاک کے رنگ میں مجھے پاتا

معاملۂ پنجم

منقبت ایک مجھ سے کہوایا
جس کا میں نے صلہ انھیں پایا
پھر وہی کرتے میں جو کچھ کہتا
ایک پردہ سا بیچ میں رہتا
دوستی رابطہ وفا اخلاص
ساتھ میرے تھا ان کو رابطہ خاص
میں تقاضائی ملنے کا رہتا
مختلط ہونے کو سدا کہتا
میری تسکیں تھی ہر زماں منظور
آپ بھی کرتے ملنے کا مذکور
وصل کے وعدے ہی رہا کرتے
آج کل رات دن کہا کرتے
دل تو تھا رحم آشنا ازبس
کڑھتے تھے جان کر مجھے بے کس
جانتے تھے کہ ہے یہ دل دادہ
سید خستہ خاک افتادہ
دیکھتے مجھ کو جو پریشاں دل
کہتے اے میرؔ کچھ نہیں حاصل
دیکھ ٹک تو ہی تیرا حال ہے کیا
جانے دے اب بھی یہ خیال ہے کیا
آفت جاں ہے دوستی کرنا
کب تلک گھٹ کے اس طرح مرنا
میں جو دیوانہ ان کے رو کا تھا
شیفتہ پیچ دار مو کا تھا
کچھ نہ سمجھی گئی کہن ان کی
اب جدائی جو ہے کٹھن ان کی
یاد کرتا ہوں اور روتا ہوں
وعدہ بن ہی ہلاک ہوتا ہوں

معاملۂ ششم

گل روؤں بن جگر ہے داغ کباب
گیسوؤں بن ہے جی کو پیچ و تاب
صورت ان کی خیال میں ہردم
خواب میں جو ہوں وہ مژہ باہم
میں تو بستر پہ دل شکستہ اداس
چاند سا منھ انھوں کا تکیے پاس
میں بچھونے پہ بے خود و بے خواب
ایک پیکر پری کا سا ہم خواب
فرش پر پاؤں یہ غبار آلود
ان میں وے دونوں پا نگارآلود
میں تو افتادہ محو عجز و نیاز
بازو میرے کسو کی بالش ناز
جلتی آنکھوں کنے گل رخسار
جس پہ کچھ بکھرے موے عنبربار
پاس منھ کے وے لال تر نازک
دست گستاخ پر کمر نازک
فرش اس گل بدن سے سب بویا
پھول میں نے بچھائے تھے گویا
شب کٹی صورت خیالی سے
دن کو ہوں میں شکستہ حالی سے
گرچہ روزانہ بھی تصور تھا
لیکن اندوہ سے مکدر تھا
کہیں تصویر سی نظر آئی
کہیں منھ پھیر جیسے شرمائی
کبھی دل ان کے روومو میں رہے
کبھی ملنے کی آرزو میں رہے
صورت حال اور کچھ ہر دم
گاہ لب خشک گاہ مژگاں نم
میں بھی مقدور تک وفا کی ہے
جان غمناک پر جفا کی ہے
برسوں تک میں پھرا ہوں سرگرداں
روز و شب دونوں تھے مجھے یکساں
نے فقط جان سے جہاں سے گیا
زن و فرزند خانماں سے گیا
کیچ پانی ہو مینھ ہو یا برسات
روز روشن ہو یا اندھیری رات
ان تلک میرے تیں پہنچ رہنا
بیٹھے منھ دیکھنا نہ کچھ کہنا
آشنا یار سارے بیگانے
کہ ہوئے میرؔ جی تو دیوانے
رشتۂ ربط انھوں نے توڑ دیا
ملنا جلنا سبھوں نے چھوڑ دیا
نظر آتے نہیں ہیں مدت سے
انس پیدا کیا ہے وحشت سے
صبح ہوتے ہی گھر سے چلتے ہیں
جیسے کھوئے گئے نکلتے ہیں
چلتے جاتے ہیں دیکھتے ہی راہ
پر کہیں کی کہیں پڑے ہے نگاہ
مل گیا جو کوئی تو بچ نکلے
سڑی خبطی دوانے سچ نکلے
شوق سے ان کے حال دیگرگوں
پارہ پارہ دل و جگر سب خوں
رنگ ہر دم مزاج کا کچھ اور
کل کا کچھ اور آج کا کچھ اور
کیا بیاں کریے بے قراری کا
ذکر کیا حال اضطراری کا
جی پڑا ترسے ساتھ سونے کو
دل پریشان جمع ہونے کو
پاس ان کے رہوں تو دل کو قرار
پھر نہ ٹھہرے ٹک ایک کریے ہزار
گئی برباد عزت ان کے لیے
جلف لوگوں نے منھ پہ طعنے دیے
گھورے پر سے جو اٹھ نہ سکتے تھے
وے بھی کناس پوچ بکتے تھے
سفر آیا جو ان کے تیں درپیش
ساتھ اس رنج میں بھی تھا درویش
کیا کہوں جو اذیتیں دیکھیں
ہر قدم پر قیامتیں دیکھیں
جو پڑھے گا تسنگ نامہ یاں
ہوگی ساری حقیقت اس پہ عیاں
یاں نہ تفصیل کرنے کا تھا مقام
کہ محبت سے یاں ہے حرف کلام

معاملۂ ہفتم

بارے کچھ بڑھ گیا ہمارا ربط
ہوسکا پھر نہ دو طرف سے ضبط
تب ہوا بیچ سے یہ رفع حجاب
جب بدن میں رہی نہ مطلق تاب
ایک دن ہم وے متصل بیٹھے
اپنے دل خواہ دونوں مل بیٹھے
شوق کا سب کہا قبول ہوا
یعنی مقصود دل حصول ہوا
واسطے جس کے تھا میں آوارہ
ہاتھ آئی مرے وہ مہ پارہ
گہ گہے دست دی ہم آغوشی
ہم سری ہم کناری ہم دوشی
چند روز اس طرح رہی صحبت
پیار اخلاص رابطہ الفت
کچھ کہوں جو انھوں کی ہو تقصیر
نارسائی تھی طالعوں کی میرؔ
ہوگئے بخت اپنے برگشتہ
پھر کیا آسماں نے سرگشتہ
بات ایسی ہی اتفاق پڑی
کہ ہوئی سر پہ فرقت آن کھڑی
لگی کہنے کہ مصلحت ہے یہ
کتنے روزوں جدا تو مجھ سے رہ
یوں بھی آتا ہے عشق میں درپیش
کہ نشان بلا ہوں الفت کیش
میں اٹھایا نہیں ہے تجھ سے ہاتھ
کڑھیو مت تو ہے میری جان کے ساتھ
اس جدائی کا مجھ کو بھی غم ہے
کیا کروں آبرو مقدم ہے
میں کہوں کیا مجھے نہ اپنا ہوش
جیسے تصویر سامنے خاموش
آنسو آنکھوں میں پر پیے جاؤں
وے کہیں کچھ تو ہاں کیے جاؤں
ان سے رخصت ہوئے جو بعد شام
تیرہ دیکھا جہان کو ہر گام
دل ٹھہرتا نہ تھا ملالت تھی
جان کو رفتگی کی حالت تھی
یوں ہوا ان کے کوچے سے آنا
جیسے ہووے جہان سے جانا
اب جو گھر میں ہوں تو فسردہ سا
چارپائی پہ ہوں تو مردہ سا
جی انھوں میں فسردہ قالب یاں
متحرک ہو کیا تن بے جاں
حال دل کا کہوں جو ہمدم ہو
کروں پیغام کچھ جو محرم ہو
جی میں کچھ آیا رو کے بیٹھ رہا
دل زدہ چپکا ہوکے بیٹھ رہا
کوئی آیا جو واں سے جی آیا
سو نہ آیا کبھی کبھی آیا
دیکھیے چند یوں رہیں گے جدا
چاہے ہے کیا ہمارے حق میں خدا
خون دل کب تلک پئیں گے ہم
رنگ یہ ہے تو کیا جئیں گے ہم
آہ کیا کیا بیاں کروں خوبی
دل دہی حال پرسی محبوبی
تند ہوکر نہ بات کو کہنا
ملتفت حال زار پر رہنا
لطف مبذول حال پر ہر آن
تازہ ہر دم مروت و احسان
لب سے جاں بخش حرف سے دل جو
لطف سے پوچھنا کہ خوش ہے تو
یاد کر روؤں ان کی کون سی بات
کس طرح کاٹوں ہجر کے اوقات
ملنا ان سے ہو پھر گھٹے غم بھی
آئے جیتوں میں جانیے ہم بھی
مدت ہجر اگر تمام ہوئی
ورنہ اپنی تو صبح شام ہوئی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.