معنی طراز عشق ہر اک بادہ خوار تھا
معنی طراز عشق ہر اک بادہ خوار تھا
اس میکدے میں مست جو تھا ہوشیار تھا
تمہید تھی جنوں کی گریباں ہوا جو چاک
یعنی یہ خیر مقدم فصل بہار تھا
بننے لگے ہیں داغ ستارے خوشا نصیب
تاریک آسمان شب انتظار تھا
تھے زندگی کے ساتھ محبت کے کاروبار
آخر کسی کے در پہ ہمارا مزار تھا
مرنے پہ بھی کٹا نہ عذاب غم فراق
کنج لحد خلاصۂ شب ہائے تار تھا
آغاز عشق ہی میں مجھے چپ سی لگ گئی
اک بات بھی نہ کی کہ نفس رازدار تھا
کیا لطف دے گیا وہ فریب وفا کا دور
گویا کسی کے دل پہ ہمیں اعتبار تھا
دنیا سے رہ روان محبت گزر گئے
اس کارواں کا عالم ہستی غبار تھا
چھٹ کر قفس سے میں نہ گیا سوئے بوستاں
آخر فریب خوردۂ فصل بہار تھا
اک آہ گرم ہم نے بھری تھی شب فراق
جل کر سحر کو خاک دل بے قرار تھا
فرصت ملی نہ ہم کو تماشائے دہر کی
ہر ذرہ حسن یار کا آئینہ دار تھا
اک لخت دل بچا تھا مگر وہ بھی اے نظرؔ
آخر کو نذر دیدۂ خوں نابہ یار تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |