مقصد حاصل نہیں ہو یا ہو
مقصد حاصل نہیں ہو یا ہو
جو ہونا ہے جلد اے خدا ہو
الفت ہے پاس وضع کا نام
مرتے مر جاؤ پر نباہو
دل میں نہیں خوب میل رکھنا
جو شکوہ گلہ ہو برملا ہو
کیا ہوتا ہے فرش بوریا سے
لازم ہے کہ قلب بے ریا ہو
اک جام ہی تو پلا دے للہ
اے پیر مغاں تیرا بھلا ہو
درکار اسے مدد ہے کس کی
جس کو اللہ کا آسرا ہو
اس دل کی جلن جو دیکھ پائے
شمع سوزاں چراغ پا ہو
کیا اور بھلا کہوں میں تم کو
تم حضرت عشق بد بلا ہو
کہنے کو تو کہہ گئے ہو سب کچھ
اب کوئی جواب دے تو کیا ہو
دل زیست سے سرد ہو گیا ہے
اے سوز جگر ترا برا ہو
بے عیب کوئی نہیں ہے کیفیؔ
گر ہو تو وہ ذات کبریا ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |