ملاؤں کس کی آنکھوں سے میں اپنی چشم حیراں کو
ملاؤں کس کی آنکھوں سے میں اپنی چشم حیراں کو
عیاں جب ہر جگہ دیکھوں اسی کے ناز پنہاں کو
تجھے اے شمع کیا دیکھیں زمانے کو دکھانا ہے
ہمیں جوں کاغذ آتش زدہ اور ہی چراغاں کو
نہ تنہا کچھ یہی اطفال دشمن ہیں دوانوں کے
بھرے ہے کوہ بھی دیکھا تو یاں پتھروں سے داماں کو
جھمکتے ہیں ستاروں کی طرح سوراخ ہستی کے
چھپایا گو کہ جوں خورشید میں داغ نمایاں کو
نہ واجب ہی کہا جاوے نہ صادق ممتنع اس پر
کیا تشخیص کچھ ہم نے نہ ہرگز شخص امکاں کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |