ملی نہ فرصت جہاں ہو غش سے اٹھی جو کچھ بھی نقاب عارض

ملی نہ فرصت جہاں ہو غش سے اٹھی جو کچھ بھی نقاب عارض
by قربان علی سالک بیگ

ملی نہ فرصت جہاں ہو غش سے اٹھی جو کچھ بھی نقاب عارض
مگر سمجھتے نہیں ابھی تک تم اپنا جلوہ حجاب عارض

نہ دشت ایمن میں ذکر اس کا نہ طور ہی پر کبھی یہ چمکا
نہ ہو نظر میں جو تیرا جلوہ تو مہر کو دوں خطاب عارض

تصور ان کا ہے مجھ کو ہر دم نہ شب کو تسکیں نہ چین دن کو
ہوئی ہیں اوقات میرے بالکل تباہ کاکل خراب عارض

خوشی کی کثرت اگر ہو ان کو تو بن کے آنکھوں میں آئیں آنسو
زیادہ یاں تک ہیں اپنی حد سے نہ ٹھہرے عارض میں آب عارض

یہ رنگ بزم عدو تو دیکھو کہ لاکھ پردے کیے ہیں حائل
نقاب اٹھائے وہ گو ہیں بیٹھے مگر ہے غیرت حجاب عارض

الٰہی میری جگر فگاری رقیب سن کر انہیں سنا دیں
وہ مصلحت ہی سمجھ کے آئیں دکھانے کو ماہتاب عارض

نظر فزا ہے جہاں ہے جلوہ تمہارا احسان سب پہ ہوگا
اٹھاؤ عارض سے تم جو پردہ تو گھٹ نہ جائے گی تاب عارض

یہ نام جس کا قمر رکھا ہے مجھی سے اک داغ لے گیا ہے
سمجھ تو دیکھو سمجھ رہا ہے فلک اسی کو جواب عارض

کہیں الٰہی شب جدائی تمام ہونے کو آ گئی ہے
نمود صبح جزا ہو شاید کہ میں نے دیکھا ہے خواب عارض

ہوئی یہ حال زبوں کی شہرت کہ اس نے خجلت سے منہ چھپایا
بنا ہے رنگ شکستہ میرا بہت دنوں میں نقاب عارض

نہ پوچھو ہم سے کہ کیا سبب ہے سیاہ روزی کا اپنی سالکؔ
چمک رہا ہے بہت دنوں سے عدو پہ وہ آفتاب عارض

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse