مل جائیں ازدحام میں ہم ہی یہ ہم سے دور
مل جائیں ازدحام میں ہم ہی یہ ہم سے دور
اک گھر جدا بنائیں گے دیر و حرم سے دور
جتنے قدم زیادہ ہوں اتنا زیادہ اجر
گھر برہمن کا چاہیے بیت الصنم سے دور
شداد شکر کر کہ گئی در پہ تیری جان
جب تھا مقام شکوہ کہ مرتا ارم سے دور
پیرو ہوں گرچہ پاس ادب بھی ضرور ہے
رکھتا ہوں پاؤں خضر کے نقش قدم سے دور
چاہوں کہ حال وحشت دل کچھ رقم کروں
بھاگیں حروف وقت نگارش قلم سے دور
دیکھا ہے دام و دانہ کا دستور یاں نیا
خال ذقن ہی طرۂ پر پیچ و خم سے دور
دم بھر میں جا پہنچتے ہیں یاں کے مقیم واں
یہ مرحلہ نہیں ہے سواد عدم سے دور
ہیں کھیل سب منافیٔ شوکت کہ اہل جاہ
رہ جاتے ہیں شکار میں خیل و حشم سے دور
ناظمؔ یہ تار بجلی کے نکلے ہے راہ خوب
باتیں کریں گے یار ہو کتنا ہی ہم سے دور
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |