مل گیا دل نکل گیا مطلب

مل گیا دل نکل گیا مطلب
by حسن بریلوی

مل گیا دل نکل گیا مطلب
آپ کو اب کسی سے کیا مطلب

حسن کا رعب ضبط کی گرمی
دل میں گھٹ گھٹ کے رہ گیا مطلب

نہ سہی عشق دکھ سہی ناصح
تجھ کو کیا کام تجھ کو کیا مطلب

مژدہ اے دل کہ نیم جاں ہوں میں
اب تو پورا ہوا ترا مطلب

اپنے مطلب کے آشنا ہو تم
سچ ہے تم کو کسی سے کیا مطلب

آتش شوق اور بھڑکی ہے
منہ چھپانے کا کھل گیا مطلب

کچھ ہے مطلب تو دل سے مطلب ہے
مطلب دل سے ان کو کیا مطلب

ان کی باتیں ہیں کتنی پہلو دار
سب سمجھ لیں جدا جدا مطلب

اس کو گھر سے نکال کر خوش ہو
کیا حسنؔ تھا رقیب کا مطلب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse