ممکن مجھے جو ہو بے ریا ہو

ممکن مجھے جو ہو بے ریا ہو (1893)
by مرزا مسیتابیگ منتہی
317554ممکن مجھے جو ہو بے ریا ہو1893مرزا مسیتابیگ منتہی

ممکن مجھے جو ہو بے ریا ہو
مسند ہو کہ اس میں بوریا ہو

جب قابل دید دل ربا ہو
اللہ کرے کہ با وفا ہو

بھیجا نہیں خط شوق کب سے
معلوم ہوا کہ تم خفا ہو

بے تابئ دل اگر دکھاؤں
کوئی نہ کسی کا مبتلا ہو

مرتا ہے زر پہ اہل دنیا
نامرد کو کب خواہش طلا ہو

مٹی کر دے جو آپ کو تو
نظروں میں خاک کیمیا ہو

آئی ہے فصل گل چمن میں
اے ہوش و خرد چلو ہوا ہو

کیا مجھے در بدر پھرایا
اے خواہش دل ترا برا ہو

دکھلائی تو نے یار کی شکل
اے جذبۂ دل ترا بھلا ہو

لپٹو مجھے آ کے ہجر کی شب
اے گیسوئے یار اگر بلا ہو

اے منتہیؔ بزم یار کا حال
کیا جانئے بعد میرے کیا ہو


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%85%D9%85%DA%A9%D9%86_%D9%85%D8%AC%DA%BE%DB%92_%D8%AC%D9%88_%DB%81%D9%88_%D8%A8%DB%92_%D8%B1%DB%8C%D8%A7_%DB%81%D9%88