منصور پیتے ہی مئے الفت بہک گیا
منصور پیتے ہی مئے الفت بہک گیا
جام مئے الست بھرا تھا چھلک گیا
پیری ہوئی شباب سے اترا جھٹک گیا
شاعر ہوں میرا مصر ثانی لٹک گیا
مجھ رند پاک کا کبھی چلو نہ بھر دیا
ساقی ترے کرم سے ہر اک یار چھک گیا
میں لوٹ ہو گیا ہوں خط سبز رنگ پر
خار چمن سے دامن دل پہ اٹک گیا
پیری میں دل دیا بت بے رحم یار کو
منزل قریب تھی کہ مسافر بہک گیا
بھڑکایا دل کو تذکرۂ حسن یار نے
ایک ڈھیر آگ کا تھا ہوا سے دہک گیا
پردہ شراب عشق کا منصور سے کھلا
نداف تھا کہ پنبۂ بینا دھنک گیا
بلبل ہے چپ نسیم سحر بھی خموش ہے
شاید چمن میں برگ خرابی کھڑک گیا
جام بلور مے کا بھرا یار نے دیا
شب کو ہمارا اختر طالع چمک گیا
تو وہ حسیں ہوا کہ ہوئے تجھ پہ سب فدا
ایسا ہی گل کھلا کہ زمانا مہک گیا
رتبہ ترے کرم سے ہوا خاکسار کا
خورشید کی طرح سے یہ ذرہ چمک گیا
سودے سے جو بھرا وہ ہوا سر وبال دوش
بار شجر ہوا وہ ثمر جو کہ پک گیا
لگتا بہار گل میں گریباں کا کیا پتا
دامن کے پھاڑنے میں کہو ہاتھ تھک گیا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |