منکر بت ہے یہ جاہل تو نہیں

منکر بت ہے یہ جاہل تو نہیں
by سخی لکھنوی

منکر بت ہے یہ جاہل تو نہیں
گھر سے واعظ کہیں فاضل تو نہیں

تم نہ آسان کو آساں سمجھو
ورنہ مشکل مری مشکل تو نہیں

کیا سنبھالے میرے دل کا لنگر
زلف ہے کچھ وہ سلاسل تو نہیں

آج میں دل کو جدا کرتا ہوں
دیکھیے آپ کے قابل تو نہیں

زلزلہ میں جو زمیں آتی ہے
یہ بھی اس شوخ پہ بسمل تو نہیں

درد کو گردہ تڑپنے کو جگر
ہجر میں سب ہیں مگر دل تو نہیں

ہڈیاں کھانے کو کھاتا ہے ہما
سگ جاناں کے مقابل تو نہیں

بولا وہ گل جو سنی آہ سخیؔ
ایسی آواز عنادل تو نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse