منکر ہوتے ہیں ہنر والے
منکر ہوتے ہیں ہنر والے
نخل جھک جاتے ہیں ثمر والے
ہم نے گھورا تو ہنس کے فرمایا
اچھے آئے بری نظر والے
منہدی مل کر وہ شوخ کہتا ہے
سینک لیں آنکھیں چشم تر والے
ہے سلامت جو سنگ در ان کا
سیکڑوں مجھ سے درد سر والے
قدرؔ کیا اپنے پاس دل کے سوا
اڑیں پر والے پھولیں زر والے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |