منہ جو فرقت میں زرد رہتا ہے
منہ جو فرقت میں زرد رہتا ہے
کچھ کلیجہ میں درد رہتا ہے
تھی کبھی رشک مہر کے عاشق
دھوپ کا رنگ زرد رہتا ہے
کس کے سنتے ہو رات کو نالے
کہتے ہو سر میں درد رہتا ہے
کبھی پوچھا نہ میرے کوچہ میں
کون صحرا نورد رہتا ہے
شور ہے زرد آئی ہے آندھی
کیا مرا رنگ زرد رہتا ہے
یاد آتی ہیں گرمیاں تیری
دل ہمارا بھی سرد رہتا ہے
کہتے ہو تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
بندہ صحرا نورد رہتا ہے
جس طرف بیٹھتے تھے وصل میں آپ
اسی پہلو میں درد رہتا ہے
کہتے ہیں دل کی چوٹ کا ہے فساد
منہ تعشقؔ جو زرد رہتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |