موت کو زیست ترستی ہے یہاں

موت کو زیست ترستی ہے یہاں
by مختار صدیقی
330630موت کو زیست ترستی ہے یہاںمختار صدیقی

موت کو زیست ترستی ہے یہاں
موت ہی کون سی سستی ہے یہاں

دم کی مشکل نہیں آساں کرتے
کس قدر عقدہ پرستی ہے یہاں

سب خرابے ہیں تمناؤں کے
کون بستی ہے جو بستی ہے یہاں

چھوڑو بے صرفہ ہیں ساون بھادوں
دیکھو ہر آنکھ برستی ہے یہاں

اب تو ہر اوج کا تارا ڈوبا
اوج کا نام ہی پستی ہے یہاں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.