موت کو زیست ترستی ہے یہاں
موت کو زیست ترستی ہے یہاں
موت ہی کون سی سستی ہے یہاں
دم کی مشکل نہیں آساں کرتے
کس قدر عقدہ پرستی ہے یہاں
سب خرابے ہیں تمناؤں کے
کون بستی ہے جو بستی ہے یہاں
چھوڑو بے صرفہ ہیں ساون بھادوں
دیکھو ہر آنکھ برستی ہے یہاں
اب تو ہر اوج کا تارا ڈوبا
اوج کا نام ہی پستی ہے یہاں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |