مورنامہ
by میر تقی میر
313552مورنامہمیر تقی میر

دشت سے بستی میں آیا ایک مور
زور تھا واں حسن کا رانی کے شور
اڑ کے گھر راجا کے پہنچا بے قرار
دیکھ اس کو ہوگیا حیران کار
جاذبہ تھا حسن کا اس کے کمال
جانور بھی ہوگیا محو جمال
تھی نگہ رخسار پر حیرت کے ساتھ
چشم تھی رفتار پر الفت کے ساتھ
گر خرام ناز سے جی لے گئی
خوش نگاہی جان تازہ دے گئی
خستۂ انداز اس کا ہر بشر
رفتہ اس کے ناز کا ہر جانور
دیکھتا تھا سیر میں جلوہ گری
جا نشینہ میں جو بیٹھی وہ پری
روبرو جاکر ہوا وہ بھی کھڑا
ٹک ٹھہر کر مضطرب ہو گر پڑا
اضطراب عشق نے تاثیر کی
دل دہی کرنے اٹھی دل گیر کی
پیار سے کہنے لگی مت ہو اداس
پاس رہ میرے کروں گی میں بھی پاس
تو ہے وحشی اس قدر مانوس ہے
انس انساں کو نہ ہو افسوس ہے
ہے مزاج اپنے پرائے سے نفور
بھاگوں ہوں مانند وحشی سب سے دور
پاس رہنے سے ترے ہے دل خوشی
ہے بلا اس بال و پر میں دلکشی
اس کشش کی تھی نہ مجھ کو کچھ خبر
ہوش اڑا کر لے گئی یہ مشت پر
اب تو دل بھی لگ گیا ہے تیرے ساتھ
یک بیک سب سے اٹھایا میں نے ہاتھ
پاس رہ کر پاس ظاہر ہے ضرور
آوے راجا گھر میں تو پھر دور دور
وہ مبادا ربط سے ہو بدگماں
دوستی ہو جاوے تیری خصم جاں
رنگ رنگ اس عشق کے ہیں گے سلوک
رنگ ہردم بدلے ہے کین ملوک
رنگ صحبت دیکھ کر رنگ اور لائے
اس کو چسپاں اختلاطی خوش نہ آئے
دل ہی راجا کا جو بدبر ہو تو پھر
ترک ہی کرنا پڑے دونوں کو سر
دل بلاے بد ہے جو چاہے کرے
کچھ نہیں پروا اسے کوئی مرے
دل نہ ہوتا تو نہ جاتی دل کی تاب
دل بدن میں ایک ہے خانہ خراب
دل سے کیسے کیسے گھر ویراں ہوئے
لوگ کیا کیا بے سر و ساماں ہوئے
دل اچٹے شہ فقیری کر گئے
جنگلوں میں شہر سے جا مر گئے
مرغ گلشن دل لگی آئے بگیر
بے کلی سے اس کے ظاہر ہیں اسیر
دل نہ ہوتا کاشکے اجسام میں
کرنی تھی ایسی عطا اجرام میں
کرتے تا معلوم قدر عافیت
ہوتی اس عالم کی بھی ایسی ہی گت
مختلط رہنے سے بعد ازچند روز
شور بدنامی اٹھا اک سینہ سوز
کھل گئی غماز لوگوں کی زباں
سب پہ ظاہر ہوگیا راز نہاں
کان راجا کے بھرے دشمن ہوا
بدگمان و بدبر و بدظن ہوا
کار ظن بد کھنچا اک طول کو
سمجھا نامعقول وہ معقول کو
اب یوں ہی کرتا ہے ظاہرداریاں
ورنہ ہیں کینہ کی باتیں ساریاں
دھوم رسوائی کی ہوئی اقران میں
کسر شاں اس کی ہوئی اعیان میں
آنا جانا گھر میں کا اب ہوچکا
پاس ربط و رابطہ سب ہوچکا
بدگمانی سے ہوا ہے کینہ ورز
ہے نمودار آنکھ سے خصمی کی طرز
گھر میں لاتے ہیں کبھو تو گھیر کر
بات کہتا ہے تو منھ کو پھیر کر
راہ میں ہے یا کبھو پھر جائے ہے
پھر گیا تو دیر میں پھر آئے ہے
چار سو چھوٹے ہوئے جاسوس ہیں
ہم دگر کے درپئے ناموس ہیں
مصلحت ہے دور رہ ٹک آج کل
اس میں شاید مٹ بھی جاوے کل مکل
سر پہ لایا ہے بلا آفت کا ربط
جی بچے ہیں شوق کا گر ہووے ضبط
دل لگی تو اک خدا کا ہے غضب
اس سے پھر یارب ہے لب پر روز و شب
دل گرفتہ دل شکستہ دل زدہ
ان نے مارے مرد کیا کارآمدہ
بے دلاں بے دل رہے تو خوب ہے
تن بدن میں ایسے اک آشوب ہے
دل کے جائے ہی ملے ہے امتیاز
اہل دل کہتے ہیں جو ہو دل گداز
دل بلاے جاں ہے اے طاؤس ہائے
اس کے پہلو سے ہے لب پر ہائے وائے
ہے گی یہ دل بستگی خانہ خراب
دربدر پھرنے کا کر دیوے ہے باب
خانہ ویرانی نہیں میری ہی اب
ہے خرابی جہاں کا دل سبب
اپنے تو گھر بار کا ہے ہی فسوس
گھر ترا بھی ویسے ہے بار خروس
کیا اڑایا ہے تجھے اے مشت پر
خاک سے لے کر گیا افلاک پر
واں سے پٹکے دیکھیے کیونکر تجھے
ساتھ آوارہ کرے کیدھر مجھے
سن کھڑا طاؤس سب سنتا رہا
درد و غم سے دیر سر دھنتا رہا
بے زبانی تھی نہ کچھ کہنا بنا
چپکے ہی آزردہ دل رہنا بنا
حزن کے ساتھ اک حزیں آواز کی
گرتے پڑتے دوقدم پرواز کی
دیر سر دیوار سے مارا کیا
صبر سے ناچار پھر چارہ کیا
پاس سے کچھ دور ہی رہنے لگا
جور ہجر یار کے سہنے لگا
بے دل و آزردہ گاہے ہے کھڑا
سر جھکائے گاہ یک سو ہے پڑا
مضطرب ہو شور کرتا ہے گہے
دل پہ رکھ دیتا ہے سر تا ٹک رہے
دور دور اس سے پھرے الفت کے ساتھ
پھر کے دیکھے اس طرف حسرت کے ساتھ
آوے راجا یا نہ آوے یہ گیا
صبر کرنا اس کو اس بن ہے بنا
نوشکیبی دل لگی پر ہے عذاب
جی ملے ڈالے ہیں غم کے پیچ و تاب
عشق و بے صبری بہت مشکل ہے کام
مرگ عاشق کا ہے یہ بھی ایک نام
جی کے گھبرائے ہوا تھا پرفشاں
طاقت پرواز اس میں تھی کہاں
فرط دل تنگی سے ہوکر دل گرا
اک پرافشانی میں سر کے بل گرا
پاؤں میں نے زور تھا نے سر میں شور
ناتواں طاؤس تھا مانند مور
دوڑی محبوبہ یہ اس کا حال دیکھ
رہ سکی نہ عاشقانہ چال دیکھ
اشک ریزاں سر پہ اس کے رو رکھا
خوف طعن خلق کا یک سو رکھا
ہو تسلی جاتے بارے رہ گیا
جان کا بھی ڈر کنارے رہ گیا
چشم وا ہونے لگی اس زار سے
کی نظر رانی کے منھ پر پیار سے
سب لگے کہنے کہ اب تو یہ جیا
جان رفتہ نے منھ ایدھر پھر کیا
ہوگئی چتون بھی اس کی اب درست
پانی چھڑکو تاکہ ہووے گرم و چست
چھرچھراوے پانی چھڑکے بال و پر
اڑچلا رانی کا کہنا یاد کر
کی نظر جاتے ادھر الفت بھری
الفت ایسی جوکہ ہو حسرت بھری
اس نظر سے رانی نے بھی رو دیا
ہوش سر سے صبر دل سے کھو دیا
روتے روتے خواب گہ میں جا گری
پھر نہ اس گھر میں کوئی دن آ پھری
یہ گیا ہو پرفشاں دیوار پر
بیٹھا لیکن منھ ادھر سے پھیر کر
لوگ تا جانیں کہ یہ بھی ہے اداس
پھر نہ آوے شاید اب رانی کے پاس
واں سے اڑ کر ایک کوٹھے پر گیا
گم ہوا واں ایسا جیسے مر گیا
یاں کھلی نمام لوگوں کی زباں
کہتے تھے راجا سے جا کیا کیا نہاں
اختلاط ان دونوں کا ظاہر کیا
اس حقیقت کا اسے ماہر کیا
وہ تو کافر آگے ہی تھا سنگ دل
اور ان کے کہنے سے ہو تنگ دل
کہہ اٹھا میں فکر میں ہوں آج کل
صاف دیتا ہوں مٹا سارا خلل
جان سے ماروں گا میں اس مور کو
پھر نہ سنیے گا کبھی اس شور کو
ہے یہی ہنگامہ آرا جانور
قطع کے شایاں تھے اس کے بال و پر
تا نہ آتا شہر میں یہ دشت سے
باز رہتا ایسے سیر و گشت سے
یوز کاش اس کو کوئی کرتا شکار
شیربچہ اس کو رکھتا کوئی مار
چشم سے ہردم پڑا ٹپکے ہے زہر
اس کی چتون ہے بلاے شہر و دہر
کج خرامی کا ہے فتنہ پیش خیز
چلنا اس کا جوں چلے شمشیر تیز
مت اسے حیوان صاحب جانیو
بدبلا اس کو کہیں تو مانیو
رقص سے ہنگامہ پردازی کرے
پرفشاں ہو تو بداندازی کرے
بولے تو آواز اس کی دل خراش
کرم خوار و مار خوار و بدمعاش
رانی تھی ناقص جو خود مائل ہوئی
مفت لعن و طعن کی قائل ہوئی
بن ملے اس کے رہے ہے وہ اداس
میں کھڑا رہنے نہ دوں اپنے تو پاس
گھر میں آکر ان نے جو کی بود و باش
تھی اسے خانہ خرابی کی تلاش
رانی نے جو منھ لگایا سر چڑھا
قدر سے مقدار سے آگے بڑھا
پاؤں پھیلا گھر کا مالک ہوگیا
اس روش سے اپنا ہالک ہوگیا
اب نہ کریے اس کے تیں جب تک ہلاک
گھر نہیں ہوتا نظر آتا ہے پاک
اس میں گو رانی بھی جاوے جان سے
وہ بھی خوش ہو میری کسر شان سے
فکر میں طاؤس کی راجا رہا
منھ پہ رانی کے نہ ہرگز کچھ کہا
کی تسلی اور تا کھاکر فریب
ہو شکیبا کوئی دن یہ ناشکیب
قصہ کوتہ اڑ گیا یاں سے جو مور
منھ چھپا ایسا گیا جیسے کہ چور
کس طرف جاتا رہا ہو پرفشاں
کچھ نہ پیدا پھر ہوا اس کا نشاں
کچھ خبر اس کی نہیں کیدھر گیا
یاں کہیں جیتا ہے وہ یا مر گیا
یہ تاسف رانی کا جی کھا گیا
دل جو اس کا گل تھا سو مرجھا گیا
کس سے پوچھے کس کنے جاکر کہے
جوں خزاں کا پھول مرجھائی رہے
کیا بہار عشق کے دیکھے ہے رنگ
زرد اس کا ہے گل تر دل ہے تنگ
آنکھیں اس کی دو گل عنبر عجب
سو خبر کی راہ پر وا روز و شب
آوے جو کوئی منھ اس کا تک رہے
دیکھیں حیرانی اسے کب تک رہے
وہ تو گم گشتہ کہیں پیدا نہیں
یاں تسلی یہ دل شیدا نہیں
بے کلی اس گل کو رہتی ہے کمال
رنگ اڑے ہے مور کا کرتے خیال
ہوش سر سے جائے ہے پرواز کر
ہوتی ہے بے خود حزیں آواز کر
غش پڑی رہتی ہے اس اوسیر میں
پھر بحال آتی ہے ٹک تو دیر میں
دل کی حالت ہے وہی اندوہ میں
وہم لے جاتا ہے دشت و کوہ میں
کہتی رہتی تھی کہ اے باد سحر
لا کبھو طاؤس کی مجھ کو خبر
جی اسے ڈھونڈے ہے پر پاتی نہیں
اڑتی سی بھی یاں خبر آتی نہیں
دل انھیں دو طرحوں میں ٹھہرے صبا
یا اسے لا یا مجھے واں لے کے جا
ناقبول عشق ہوں میں تو ملول
اس طرف آتی ہے گر باد قبول
سن کے میرا حال ہوجاتی ہے سن
گرم رفتن ہوتی ہے پھر سر کو دھن
کام اس سے بھی نکلتا کچھ نہیں
مجھ کو وہ ناکام چھوڑے ہے یہیں
آئے ہے جو اس طرف باد دبور
کچھ کچھ اس سے بھی کہا ہے بالضرور
ان غموں کا کچھ نہ دے کر وہ جواب
سر جھکائے یاں سے نکلے ہے شتاب
باد صرصر سے بھی درد دل کہا
سرسری سا ان نے بھی کچھ سن لیا
جھکڑ آیا اس سے بھی تھی گفتگو
پھر نہ ایدھر رو کیا ان نے کبھو
لگ چلے ہے مجھ سے گر رنگ ہوا
گرم ہوکر اس سے میں کیا کیا کہا
کہتے کہتے میں ہوئی یوں ہی سبک
کی نہ ان باؤں نے تسکیں دل کی ٹک
بے قراری دل کی میرے ہے وہی
درہمی ہے حال کی سو ہے یہی
صبر ہوسکتا نہیں میں کیا کروں
کب تلک بے طاقتی سے دن بھروں
جی تو ٹک آتے ہی آتے رک گیا
تن بدن آتش سے غم کی پھک گیا
بے قراری سے کہوں کیا اے صبا
جو نہ کہنا تھا سو تجھ سے میں کہا
صبح کو جو آنکلتی ہے نسیم
اس سے بھی ہے درمیاں حال سقیم
وہ بھی کچھ کرتی نہیں دل کی دوا
سن کے سب ہوجاتی ہے ووہیں ہوا
جذب عشق اس جانور کا ہے بلا
مجھ کو برگ خشک سا دے ہے اڑا
جی کھنچا جاتا ہے میرا اس طرف
کر رہے گا جاذبہ اس کا تلف
آپ کو کھویا گیا پر مجھ کو بھی
کر گیا کھویا گیا سا چلتے ہی
رات دن آرام اب مجھ کو نہیں
خواب و خور سے کام اب مجھ کو نہیں
چت چڑھے گلہاے بال و پر ہیں اب
چپ کہ بلبل میں ہوں نالاں روز و شب
درہمی حال طاؤس اب سنو
عشق ہے تم کو بھی تو ٹک سر دھنو
یاں سے وہ واسوختہ اڑتا گیا
دیر اس کا منھ ادھر مڑتا گیا
پھر نہ ظاہر کچھ ہوا کیدھر گیا
وادی آبادی کہیں جا مر گیا
الغرض اک بن میں جا پنہاں رہا
دل جو آگے ہی گیا تھا یاں رہا
آب و دانے کی نہ کرتا تھا تلاش
دل ہی کے غم سے کیا کرتا معاش
سرنگوں افتادہ رہتا دیر دیر
غم سے محبوبہ کے ہی ہوتا تھا سیر
حیرتی عشق واں رہتا رہے
آتی جاتی باؤ سے کہتا رہے
جائے تو رانی سے کہیو واشگاف
پھیکے خط کے حرف سا مٹتا ہوں صاف
کیا لکھوں میں تو نہیں دست و قلم
پھر نہیں ہے محرم آلام و غم
اب تلک جیتا تو ہوں پر زندگی
دور تجھ سے ہوگئی شرمندگی
آنکھیں رہتی ہیں لگی تیری ہی اور
کرتا ہوں اندھا سا میں فریاد و شور
شور و فریاد آہ دونوں بے اثر
تجھ تلک پہنچیں تو دے مجھ کو خبر
صبر ٹک کرتا نہیں میں ناصبور
اب کھنچا ہے کام بیتابی کا دور
باؤ اودھر کی جو آتی ہے کبھو
منھ ادھر کرتی نہیں بیگانہ خو
یاں سے جز صرصر کوئی جاتا نہیں
سرسری بھی پھر ادھر آتا نہیں
اڑ کے پہنچوں کس طرح تیرے کنے
سست بال و پر دل و جاں انمنے
شوق ہردم کھینچے ہے اودھر مجھے
ہے نصیبوں میں تو دیکھوں گا تجھے
کوئی جھکڑ آنکلتا ہے کبھو
دیر اس سے رہتی ہے یہ گفتگو
کہیو جو ہو اس طرف تیرا گذر
مور اک جنگل میں کرتا تھا بسر
سر میں اس کے عشق کا سا شور ہے
مضطرب دن رات نالاں زور ہے
زارنالی سے طیور اس دشت کے
ترک کرنے پر ہیں سیر و گشت کے
شور سے ہوتا ہے جب وہ نالہ کش
طائر اس جنگل کے کر جاتے ہیں غش
اب کوئی اس راہ سے جاتا نہیں
جانکلتا ہے تو پھر آتا نہیں
صبح اس کے نالوں سے ہے دھوم دھام
طائروں کا شام تک ہے ازدحام
شور کرتے کرتے پھاٹا ہے گلا
اب جو نالے کرتا ہے سو تلملا
پاؤں پر پھیلاکے جب کھینچے ہے دم
آہوان دشت کر جاتے ہیں رم
روکے درندہ کسو کے کب رکے
خاک کے نیچے گزندہ جا چھپے
شور الحاصل ہے اس کا چار سو
شہر و دہ میں اب یہی ہے گفتگو
راو راجا سب کے ہاں مذکور ہے
مور کا سررفتہ پر مشہور ہے
رفتہ رفتہ یہ خبر یاں آگئی
رانی بھی سن گن کہیں سے پا گئی
آئی دل میں فکر جاں طاؤس کی
کشتہ مردہ ہوگئی افسوس کی
کین راجا کا خیال آیا اسے
کیا کہوں کیا کیا ملال آیا اسے
گر پڑی غش کر گئی مرجھا گئی
ناگہاں مانند گل کمھلا گئی
کیا خبر آئی کہ وہ تھی بے خبر
چوٹ کیسی پڑگئی تھی جان پر
بات منھ سے کچھ نکلتی ہی نہ تھی
دیر گذری تھی سنبھلتی ہی نہ تھی
کھل گئیں آنکھیں جو دل پر تھا بہت
کیا کرے ہاتھوں تلے رکھا بہت
ہر طرف کی حسرت آلودہ نگاہ
لب پہ آئی ناتواں سینے سے آہ
آہ کر پوچھا کہ راجا ہیں کہاں
ان کے کینے سے مجھے ہے خوف جاں
یہ خبر ان کو نہ پہنچی ہووے کاش
وے تو جی ماریں گے اس کا کر تلاش
بدگمانی کا کھنچا ہے دور کام
مور کا لیتا نہیں کینے سے نام
مجھ پہ بھی اس جرم سے آیا غضب
کشت و خوں کے سب ہیں درپے اس سبب
یہ لگائی لاگ سے لوگوں نے آگ
گھر جلاتی رہتی ہے آگے سے لاگ
دیکھیے کیا درمیاں آوے سلوک
آگ ہے بھڑکی ہوئی کین ملوک
لوگوں کی پھر اشتعالک دم بدم
قہر ہے بیداد ہے ظلم و ستم
آج کل سے یہ تو آئی ہے خبر
جب نہ تب ہیں گوش راجا کے ادھر
کلول ایسے جان پر سے کیا ٹلے
کیا عجب آنکھیں ملے پاؤں تلے
ہم کو پاتا ہے چھری پاتا نہیں
کب پئے خوں ریز یاں آتا نہیں
دشمنی کی بات ہی کچھ اور ہے
نے ترحم ہے نہ مطلق غور ہے
جانور کا انس کچھ ثابت نہیں
انس انساں کی سی یہ تہمت نہیں
غیرت اپنی بھی نہیں ہے مقتضی
جیتی رہتی عشق کی ہو تہمتی
زندگانی کیا ہے جب غیرت گئی
مفت ذلت ہوگئی عزت گئی
جب تلک آئی نہیں جیتے ہیں ہم
لوہو اپنا ہر زماں پیتے ہیں ہم
جو مخاطب تھا کہا ان نے کہ ہاں
اس خبر کا اب نہیں اودھم کہاں
سن کے راجا نے کہا یہ اس کی دھوم
دامداروں کو بلا کاے قوم شوم
لو خبر ہے کس طرف وہ خارزار
آپ جاؤں گا ادھر بہر شکار
گوکہ ہو وہ بادیہ پر شر و شور
راہ چلتے ہوں عصا سے مار و مور
ہر طرف راجا کے پہنچے دامدار
ہو تلاشی تا کدھر ہے دشت خار
صیدپیشہ وے گئے ہر چار اور
دیکھیں کس جنگل میں ہے وہ مورشور
کس بیاباں میں ہے اس کی بود و باش
کون سے ہے دشت و بر میں بدمعاش
راہ میں ان سب کو یہ آئی خبر
جس بیاباں میں ہے وہ تفتہ جگر
خار کا جنگل نہیں ہے دشت مار
روز روشن میں بھی ہے تیرہ و تار
دم کش اژدر نکلے ہے گر سیر کو
دور سے کھینچے ہے وحش و طیر کو
جلتے ہیں آتش زبانی سے بہت
پتلے ہوجاتے ہیں پانی سے بہت
یعنی دم سے طیر ہوتے ہیں گداز
ہے زبانہ آگ کا اس کی دراز
ایسے ایسے سو پھریں ہیں واں سدا
جن کی وحش و طیر ہے اکثر غذا
اور بھی رہتے ہیں واں اقسام مار
گھر انھوں کے ہیں اسی جنگل کے غار
ہے عجب ماروں میں مور آکر رہے
مار بھی پھر کیسے اژدر اژدہے
مرغ کر جاتے ہیں مرغ انداز دس
کیا کریں اک مور کے کھانے سے بس
مار کھاجا مور کا ہے یاں کے مار
مور دس دس کھا گئے ہیں ایک بار
گرد ہے اس دشت کے کوہ گراں
اس سے اژدر جھانکے ہے پیدا نہاں
جانور اڑتے جو ڈھب پر آگئے
چار چار ایک ایک ان کو کھا گئے
ہے زمانے سے بھی دھیمی ان کی چال
جن کے ہیں کیڑے مکوڑے پائمال
جیب کو اپنی گزوں تک دیں ہیں طول
خشت و سنگ و خاک تک کھاویں اکول
ان کے چاٹے دشت میں کم ہیں درخت
چٹ کیے ہیں کوہ تک کے سنگ سخت
ماریے پتھرچٹے مشہور ہیں
ریزہ دنداں ان کے پتھر چور ہیں
قدرت حق سے رہا ہے ان میں مور
پھر قیامت کا سا اس کے سر میں شور
مور کیا چوری چھپے آیا ہے یاں
عشق کا اعجاز اسے لایا ہے یاں
فتنہ در سر عشق کے یہ کام ہیں
مور اژدر رانی راجا نام ہیں
عشق ہے ہنگامہ ساز شور و شر
قصے قضیے عشق سے ہیں مختصر
دشت ماراں خاک ہوگا جل جلا
اژدہے مر جائیں گے سب تلملا
بھیڑ لے کر ساتھ راجا آئے گا
کل مکل میں مور مارا جائے گا
خاک میں مل جائے گا کوہ گراں
خاک سی اڑ جائے گی آخر کو واں
رانی ہوگی فرط غیرت سے ستی
جانور کے عشق کی ہے تہمتی
طعن مردم سے ہوئی ہے بسکہ تنگ
زندگی کو جانتی ہے اپنا ننگ
رفتہ رفتہ راجا کا گھر جائے گا
عشق کام ان پردوں میں کر جائے گا
لے گئے القصہ جاسوساں خبر
جیتے مرتے پہنچے کچھ راجا کے گھر
کی حقیقت اس جگہ کی تب بیاں
حال واں کا ہوگیا سب پر عیاں
راہ کی مشکل گذاری سب کہی
سننے والے لوگوں کو حیرت رہی
جنگلوں میں خارزاری نقل کی
راہ واں نکلی نہ ہرگز عقل کی
دشت ہر یک خارزار لق و دق
پاؤں چلتے چلتے جاسوسوں کے شق
سختی سنگستاں کی بیش از بیش تھی
سالکوں کی واں کف پا ریش تھی
غنچہ غنچہ اک بیاباں میں تھے خار
غیر گل خار وھاں برگ اور نہ بار
پاؤں ریگستاں میں تا زانو جلے
راہ سر کے بھل کوئی کیوں کر چلے
گرم تر اک دشت میں تھا آفتاب
سایہ واں پیدا نہ تھا نے قطرہ آب
تشنگی سے کیا عجب ہے غش بھی ہو
آب تو واں تھا نہ جو لب چش بھی ہو
شہری اس کے شور سے یکسر تھے داغ
نکلے تھے دس بیس ہم بہر سراغ
پھرتے پھرتے جنگلوں میں تھک گئے
کتنوں کے تیں شیر و اژدر بھک گئے
چلتے چلتے دور تک آئے نکل
پڑ گئے تھے آبلے تلووں میں چل
اور ابھی جنگل بڑے درپیش ہیں
پاؤں دونوں شل ہیں تلوے ریش ہیں
دیکھیے ہوتا ہے واں کیونکر نباہ
ہے بہت مشکل گذر کانٹوں سے راہ
ہر قدم خطرہ کہ ہیں شیر و پلنگ
اس پہ سر ماریں کہ رہ پرخار و سنگ
پھر تراکم چار سو اشجار کا
پھر ہراس اس میں گڑھے کا غار کا
ہاتھی ارنے خوک کی واں باش و بود
کرگدن کی دھوم سے اکثر نمود
ہیں بیاباں مہلکی یہ تو سبھی
زندگی کیونکر کرے واں آدمی
قافلہ جاسوسوں کا اودھر چلا
آدھا پر واں سو گیا گذرا کھپا
زندگی سے جمع یہ مایوس ہے
ہر خطرگہ خانۂ جاسوس ہے
کیا کرے جو رزق یوں مقسوم ہے
واں ملے مرنا جہاں معلوم ہے
کچھ ہو دشت مار تک جانا ہمیں
مور کی واں سے خبر لانا ہمیں
آب و دانہ لے چلا ہے اب تو واں
آب و دانہ کچھ نہیں ملتا جہاں
دیکھیے جانا ہو کیونکر اتفاق
بھوکوں مرنا راہ چلنے میں ہے شاق
سوچ کر آپس میں وے آگے گئے
دن گئے تھے رات بھی جاگے گئے
راہ میں دو چار فاقے بھی کیے
کتنے ان میں سے موئے کتنے جیے
طے ہوئے وے دشت جوں ہی ہولناک
دشت ماراں پہنچے کچھ بے خوف و باک
دیکھی اس کے ناحیہ میں ایک دھوم
تھا چرندوں کا درندوں کا ہجوم
جمع رہتے تھے طیور دشت بھی
صبح سے تھی ترک سیر و گشت بھی
شور بیتابی سے بعضے تھے دہم
سن کے نالے بعضے کر جاتے تھے رم
حزن سے ہوتا ہے جس دم نالہ کش
پاس ہی کچھ جانور کرتے ہیں غش
دیکھ وا منقار اس کی رحم کر
کچھ نہ کچھ رکھ دیتے منھ میں جانور
کوئی دانہ بوند پانی گھاس پات
کاٹتا تھا اس طرح دن اور رات
یا رکا تو سست سی پرواز کی
اس بیاباں میں حزیں آواز کی
کچھ اڑا بیتاب کچھ رکنے لگا
سنگریزے کنکری چکنے لگا
گر کہیں دوچار دانے پا گیا
شکر کر اپنی زباں میں کھا گیا
جو کسو تالاب سے پانی پیا
آسماں کی اور منھ اپنا کیا
تو نہ دے تو یعنی مجھ کو کون دے
پرشکستہ کی خبر یوں کون لے
سن کے راجا یہ خبر شاداں ہوا
خشمگیں تر خانہ آباداں ہوا
حکم کش لوگوں سے اپنے یہ کہا
دیر اس موذی کے غم میں میں رہا
اب یہ مژدہ لائے ہیں جاسوس جا
ان بنوں میں ایک بن میں وہ بھی تھا
مجھ کو جانا اس طرف کا ہے اہم
کھا گیا ہے جان اس دشمن کا غم
لوگ میرے گرچہ ہیں حاضریراق
پھر رکھو کچھ اور بھی بہر یساق
جنگ حیوانات سے ہے بیشتر
ہیں طرف اژدر نمر شیراں شتر
یہ لڑائی طول کو گر کھنچ گئی
ہمت مردانہ سنیو ہچ گئی
ہے لڑائی سخت کوہستان کی
پھر بہم حیوان اور انسان کی
منھ پسارے اژدہے ہیں گرم جنگ
کھینچ کر نگلے ہیں دم سے خشت و سنگ
آئے ہاتھی بھی اتر گر کوہ سے
ہوسکے گا پھر نہ کچھ انبوہ سے
ہوگیا باراہ سد راہ گر
لیویں گے جاکر نفر راہ دگر
ہو اگر جاموش دشتی سے مصاف
تو کوئی دم ہی کو ہے میدان صاف
کرگدن آکر اگر ہوگا طرف
تو الٹ دیوے گا کوئی صف کی صف
منھ چڑھیں گے اس کے مردم کم بہت
اک طرف ہو جاوے گا عالم بہت
ہوگئی گر خرس سے استادگی
درمیاں آجائے گی افتادگی
منھ اگر گرگ بغل زن آگیا
دیکھیو پیٹھ اک جہاں دکھلا گیا
یوز و گرگ و شیر اگر آجائیں گے
بددلوں کی فوج کو کھا جائیں گے
مست ہاتھی ہوگئے چہرہ اگر
منھ چھپا لیں گے سپاہی بیشتر
سامنے ہوگا اگر مار سیاہ
سامنے اس کے نہ ہووے گی سپاہ
گرم کیں اژدر کوئی گر آگیا
کھا گیا چٹ کر گیا جیتا گیا
لوگ رکھو الغرض صاحب جگر
پہنچیں سر پر مدعی کے بیشتر
جدول ان کی تیغ کی جاری رہے
ان کی تردستی سے وہ عاری رہے
ساتھ راجا کے گیا جم غفیر
ہم صغیر و ہم جوان و ہم کبیر
راوراجا ساتھ جب سارے گئے
کچھ نہ بولے شرم کے مارے گئے
منزلیں طے ہوکے آئے دشت و در
اترے واں جا لوگ لشکر سربسر
بھڑکی آتش عشق کی جنگل جلے
دوں لگا وہ طائر و اژدر چلے
آگ پھیلی ان بنوں میں دور تک
جل گئے حیواں کئی لنگور تک
مار و اژدر اژدہے بھلسے گئے
شیر و گرگ و کرگدن جھلسے گئے
جل گیا طاؤس بھی اس آگ میں
جی گئے بہتیرے دل کی لاگ میں
مور کا مردہ گیا راجا کے پاس
اور جھلسے بھلسے طائر بے حواس
پھر پڑی جو آگ سب لشکر جلا
اور راجا کا بھی اودھر گھر جلا
یعنی رانی نے سنی جو یہ خبر
آتش غم سے جلا اس کا جگر
کھینچ آہ سرد یہ کہنے لگی
عشق کی بھی آگ کیا بہنے لگی
بن جلا کر بستیوں میں آلگی
پھیل کر یاں دل جگر کو جالگی
جمع کر خاشاک و خار و خس شتاب
جل گئی دے آگ وہ بھی بس شتاب
کیا لگی تھی دل کو رانی جل گئی
خاک ہوکر خاک ہی میں رل گئی
عشق ہی کی ہیں یہ تازہ کاریاں
عشق نے پردے میں جانیں ماریاں
مور کے بدلے جلایا دشت مار
مار و اژدر جل گئے چندیں ہزار
جل کے لشکر ہوگیا تھا بے چراغ
یہ خبر سن ہوگیا راجا بھی داغ
عشق سے کیا میرؔ اتنی گفت و گو
خاک اڑا دی عشق نے ہر چار سو
درمیاں نے کوہ نے انبوہ ہے
رانی کا راجا کا اب اندوہ ہے
طائر و طاؤس و حیواں اژدہے
سب کھپے کیا عشق کی کوئی کہے
یہ فسانہ رہ گیا عالم کے بیچ
بازماندہ ان کے ہیں سب غم کے بیچ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.