موسم گل ترے انعام ابھی باقی ہیں
موسم گل ترے انعام ابھی باقی ہیں
شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں
اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں
پیچ اے زلف سیہ فام ابھی باقی ہیں
اک سبو اور کہ لوح دل مے نوشاں پر
کچھ نقوش سحر و شام ابھی باقی ہیں
ٹھہر اے باد سحر اس گل نورستہ کے نام
اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں
اٹھو اے شب کے غزالو کہ سحر سے پہلے
چند لمحات خوش انجام ابھی باقی ہیں
انتظار اے دل و دیدہ کہ ہزاروں اسرار
سائے کی طرح تہہ جام ابھی باقی ہیں
کھول کر کیجئے تشریح سر مصرع زلف
اس نوشتے میں کچھ ابہام ابھی باقی ہیں
اے سہی قد تری نسبت سے سب اونچی قدریں
باوجود روش عام ابھی باقی ہیں
ہم میں کل کے نہ سہی حافظؔ و خیامؔ ظفرؔ
آج کے حافظؔ و خیامؔ ابھی باقی ہیں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |