موہنی بلی

موہنی بلی
by میر تقی میر
313551موہنی بلیمیر تقی میر

ایک بلی موہنی تھا اس کا نام
ان نے میرے گھر کیا آکر قیام
ایک دو سے ہوگئی الفت گزیں
کم بہت جانے لگی اٹھ کر کہیں
ربط پھر پیدا کیا میرے بھی ساتھ
دیکھتی رہنے لگی میرا ہی ہاتھ
آئے ہے مجھ پاس یہ اٹھ کر سویر
گربۂ زرد فلک نکلے ہے دیر
یعنی وقت گرگ و میش آئے ہے پاس
پھر مرا پہروں کیا ہے ان نے پاس
چھیچھڑا ٹکڑا جو کچھ پایا کرے
فقر میرا دیکھ کر کھایا کرے
بختوں سے ٹوٹا ہے چھینکا بھی اگر
ان نے اودھر کی نہیں مطلق نظر
دخل کیا ہے جھانکے یہ چھینکے کی اور
ٹکڑے کو دیکھے نہ گو بھوکی ہو زور
اس مروت پیشہ سے کیا ہے گلہ
خوف سے آپھی گہے چوہا ملا
ایک بلی کچھ گئی تھی آکے چکھ
یہ لڑی تو منھ پہ پنجہ اپنے رکھ
برسوں یاد آوے گی یہ پاکیزہ خو
آگے آئی ہی نہیں چلتے کبھو
لانگھی ہو جو گھر سے جاتے تد رہوں
چلتے چھینکا ہو کبھو تو کچھ کہوں
تھی جو ظاہر جوں کڑاہی تیرہ رنگ
پر تماشا کردنی تھے اس کے ڈھنگ
شوق میں ہمسائیاں اس کے رہیں
جو گئی بھی ٹک تو مانگے سے کہیں
پھرنے کو تو پھرتی کیا دلی نہ تھی
پر جلے پاؤں کی یہ بلی نہ تھی
رفتہ رفتہ کوٹھوں پر جانے لگی
پہروں پہروں میں یہ پھر آنے لگی
حاملہ ہوکر کئی بچے دیے
ایک دو بھی سو نہ ان میں سے جیے
متصل ایسا ہوا جو اتفاق
مرگ ان بچوں کی گذری سب پہ شاق
حفظ اس کی کوکھ کا لازم ہوا
جھاڑے پھونکے کا ہر اک عازم ہوا
نذریں مانیں نقش لائے ڈھونڈھ کر
نیل کے ڈوروں میں باندھے پیٹ پر
چھیچھڑوں میں بعضوں نے افسوں لکھے
بعضوں نے تعویذ لے کر خوں لکھے
بی بلائی سے بہت کی التجا
گربۂ محراب سے چاہی دعا
گوشت کی چیلوں کو پھینکیں بوٹیاں
ماش کی موٹی پکائیں روٹیاں
لڑکیاں بٹھلائیاں کھاٹوں تلے
اس طرح جوں دبکی بلی کم ہلے
دیتے ٹکڑا منھ کو ہر اک کھولتے
اور بولی بلیوں کی بولتے
صدقے اترے چھیچھڑے جو ڈھیر ڈھیر
گربۂ لاوہ نے کھائے ہو کے سیر
کیں مناجاتیں دل شب لاتعد
گربۂ زاہد سے بھی چاہی مدد
بوہریرہ کے تئیں مانا بہت
بلیوں کو بھی دیا کھانا بہت
مدح جس بلی کی کرتا تھا عبید
تھی دعاگوئی میں وہ بے مکر و شید
خواجہ عصمت کرتے تھے طاعت جہاں
ایک بلی بیٹھی تھی آکر وہاں
صبح دم ہوتی وہی گرم سجود
گہ قیام اس کے تئیں تھا گہ قعود
چاہی ہمت اس سے اٹھ کر ہر سحر
کچھ تو باطن نے کیا اس کے اثر
پانچ بچے اس نے اس نوبت دیے
بارے سب وے قدرت حق سے جیے
کیوں نہ ایسی ہووے امداد سترگ
بی بلائی بوہریرہ سب بزرگ
اک توجہ رکھے تھے ظاہر کی اور
آرزو بر لائے یہ باطن کی زور
اپنی ماں کے رات دن سینے لگے
پانچوں بچے دودھ کچھ پینے لگے
دودھ کتنا جو کہ بس ہو سب کے تیں
میں بھی منگوانے لگا کچھ شب کے تیں
دودھ پی کر گائے بکری کا چلے
روز و شب لوگوں کی آنکھوں کے تلے
دیر میں میں نے جو یہ ٹک غور کی
بلیاں پانچوں ہیں یہ اک طور کی
دو مہینے تک بہت تھی احتیاط
کتے بلی سب سے موقوف اختلاط
کوئی کتا آگیا ایدھر اگر
لوگ دوڑے شیر سے منھ پھاڑ کر
در سے نکلیں سب ہوئے بازی کے گرم
زرد زرد ان کی دمیں منھ نرم نرم
لچھے ریشم کے سے چندیں رنگ خال
کچھ سفید و کچھ سیہ کچھ زرد و لال
آ نکلتی تھیں جدھر یہ پانچ چار
وہ طرف ہوجاتی تھی باغ و بہار
ایک عالم عاشق و بے تاب تھا
ان کی خاطر بے خور و بے خواب تھا
لے گئے ایک ایک کر سب تین تو
منی مانی رہ گئیں مجھ پاس دو
منی کی پھر ایک صاحب نے پسند
تھی بھی نازک ایسی ہی طالع بلند
مانی کچھ بھاری تھی نکلی بردبار
رہ گئی یاں فقر کو کر اختیار
بوریے پر میرے اس کی خواب گاہ
دل سے میرے خاص اس کو ایک راہ
میں نہ ہوں تو راہ دیکھے کچھ نہ کھائے
جان پاوے سن مری آواز پاے
سب سے آگے آن پہنچے در تلک
دیکھے میرے پاؤں سے لے سر تلک
آنکھ سے معلوم ہو مشتاق ہے
بلی یا اعجوبۂ آفاق ہے
بلیاں ہوتی ہیں اچھی ہر کہیں
یہ تماشا سا ہے بلی تو نہیں
گردرو باندھے تو چہرہ حور کا
چاندنی میں ہو تو بکا نور کا
گرم شوخی ہو اگر یہ مثل برق
بجلی میں اس میں نہ کچھ کرسکیے فرق
یا پری اس پردے میں ہے جلوہ گر
اٹھتی اودھر سے نہیں ہرگز نظر
کیسی ہی بلی ولایت کی ہو زور
خوب دیکھو تو ہے اس کے صدقے حور
ربط ہے اپنے بھی جی کو اس کے ساتھ
بیٹھے ہے تو پیٹھ پر میرا ہے ہاتھ
ایک دن جاکر کہیں ٹک سو گئی
مانی مانی سارے گھر میں ہوگئی
بلی کا ہوتا نہیں اسلوب یہ
ہے کبودی چشم یک محبوب یہ
دیکھے جس دم یک ذرا کوئی اس کو گھور
چشم شور آفتاب اس دم ہو کور
حسن کیا کیا مانی کے کریے بیاں
سو جہاں جب تک یہ ہووے درمیاں
خوبی منی کی نہ کوئی کہہ سکے
دیکھے اس کو تو نہ اس بن رہ سکے
داغ گلزاری سے اس کے تازہ باغ
اس زمان تیرہ کی چشم و چراغ
کیا دماغ اعلیٰ طبیعت کیا نفیس
کیا مصاحب بے بدل کیسی جلیس
یہ نفاست یہ لطافت یہ تمیز
آنکھ دوڑے ہی نہ ہو کیسی ہی چیز
اس کو گر کعبے میں یہ ہو شوخ و چست
ہے کبوتر مارنا واں کا درست
چوہا چڑیاں ان نے کچھ کھایا نہیں
حج کو جانا اس کے تیں آیا نہیں
حب ہرہ جوکہ ہے ایمان میں
ہے اسی بلی کی شاید شان میں
تھا بہت منی کا جننا آرزو
سو جنی دو بلیاں ہیں ماہ رو
خال ہیں ان پر بھی ماں کے سے عیاں
پر وہ خوبی اور محبوبی کہاں
موہنی اور سوہنی ہے ان کا نام
پھرتی ہیں پھندنا سی دونوں صبح و شام
نیلے دھاگے گردنوں میں ہیں پڑے
لوگ آنکھوں میں ہی رہتے ہیں کھڑے
حفظ ابھی بلوں سے ان کا ہے ضرور
رہیو ان دونوں سے چشم شور دور
دیکھے ان کی اور جو ٹک کرکے خشم
کاڑھ کر دیں بلیوں کو اس کی چشم
قصہ کوتہ موہنی آگے موئی
یک قیامت جان پر اس بن ہوئی
صبر بن چارہ نہ تھا آخر کیا
بلی ماروں میں اسے گڑوا دیا
شاد وہ جس کے رہیں قائم مقام
وائے اس پر جس کسو کا لیں نہ نام


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.