مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر

مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر
by اکبر الہ آبادی

مہربانی ہے عیادت کو جو آتے ہیں مگر
کس طرح ان سے ہمارا حال دیکھا جائے گا

دفتر دنیا الٹ جائے گا باطل یک قلم
ذرہ ذرہ سب کا اصلی حال دیکھا جائے گا

آفیشل اعمال نامہ کی نہ ہوگی کچھ سند
حشر میں تو نامۂ اعمال دیکھا جائے گا

بچ رہے طاعون سے تو اہل غفلت بول اٹھے
اب تو مہلت ہے پھر اگلے سال دیکھا جائے گا

تہ کرو صاحب نسب نامی وہ وقت آیا ہے اب
بے اثر ہوگی شرافت مال دیکھا جائے گا

رکھ قدم ثابت نہ چھوڑ اکبرؔ صراط مستقیم
خیر چل جانے دے ان کی چال دیکھا جائے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse