مہرباں مجھ پہ ہو اے رشک قمر آج کی رات

مہرباں مجھ پہ ہو اے رشک قمر آج کی رات
by نسیم میسوری
316972مہرباں مجھ پہ ہو اے رشک قمر آج کی راتنسیم میسوری

مہرباں مجھ پہ ہو اے رشک قمر آج کی رات
آ مرے چاند کے ٹکڑے مرے گھر آج کی رات

راہ بھول آیا ہے اک چاند ادھر آج کی رات
کیسی گھر بیٹھی ہے دولت مرے گھر آج کی رات

یار آیا نہیں کیوں کر ہو بسر آج کی رات
تا قیامت نہیں ہونے کی سحر آج کی رات

آپ سے آپ وہ آئے مرے گھر آج کی رات
دین و دنیا کی نہیں مجھ کو خبر آج کی رات

کیوں خفا مجھ سے ہے وہ رشک قمر آج کی رات
بدلی بدلی نظر آتی ہے نظر آج کی رات

اے صنم بہر خدا آپ ہی لائیں تشریف
پتلیوں کا ہے تماشا مرے گھر آج کی رات

سادگی ہے تری پریوں کی بناوٹ سے سوا
صبح ہو جائے گی اتنا نہ نکھر آج کی رات

زلف سلجھاتے ہوئے پیار سے وہ دیکھتے ہیں
کیا میں ہو جاؤں گا منظور نظر آج کی رات

میری گستاخی نہ یاد آئے الٰہی ہرگز
ان کو بیکل نہ کرے فکر کمر آج کی رات

مانگ موتی سے بھری ہے نہ چڑھو کوٹھے پر
تم کو لگ جائے گی تاروں کی نظر آج کی رات

لیلۃ القدر ہے یہ یا شب معراج ہے یہ
یار کے زانو پہ اپنا جو ہے سر آج کی رات

وصل اک پردہ نشیں سے ہے نہ ہو غیر کا دخل
شمع تک آئے نہ پروانہ کا پر آج کی رات

میہماں آپ بس اتنا ہی رہیں میرے گھر
کل کا روز آج کا دن چار پہر آج کی رات

کل نہ دوں گا تجھے تکلیف کچھ ایسی واللہ
کھول دے بند قبا شرم نہ کر آج کی رات

جلوہ کیا خوب ہے مہتابی کا مہتابی پر
لطف مے نوشی ہے اے رشک قمر آج کی رات

باغ و مے چاندنی اور وصل پری ہے مجھ کو
پیتے ہیں میرے عدو خون جگر آج کی رات

گل بدن پہنے ہیں وہ محرم کمخواب نہیں
نیند آنے کا مرے دل میں ہے ڈر آج کی رات

کس زباں سے ہو بیاں آؤ گلے لگ جاؤ
دل سے دل ہی سنے کچھ درد جگر آج کی رات

بخت بیدار سے وہ چاند مرے ہاتھ آیا
آسماں تک ہیں مرے دست نگر آج کی رات

ہاتھ سے زلف وہ سلجھائیں تو ہو جاؤں نہال
دیکھ لوں نخل تمنا کے ثمر آج کی رات

عاشق ابرو کو کیا قتل کرو گے ناداں
ننھی تلوار جو ہے زیب کمر آج کی رات

یار کی زلف زر افشاں مجھے یاد آتی ہے
کیا ہی سینے سے نکلتے ہیں شرر آج کی رات

بشکن و بشکن مینا کی صدا کو سن کر
آنے پائے نہ کہیں میم بسر آج کی رات

گورے گالوں سے نہ سرکاؤ سیہ زلفوں کو
خوف ہے مجھ کو نہ ہو جائے سحر آج کی رات

عاشق زلف کو دو بوسۂ خط و ابرو
مصحف رخ پہ لکھوں زیر و زبر آج کی رات

رقص اس زہرہ جبیں کا ہے عدو کے گھر میں
مہر میزاں میں ہے عقرب میں قمر آج کی رات

ہاتھ وہ جوڑتے ہیں سر ہے مرا قدموں پر
ہو نہ سمجھانے منانے میں سحر آج کی رات

خفتہ بختی سے الٰہی یہ کہیں سو جائیں
توپچی زاہد و مرغان سحر آج کی رات

گل شبو ہے لجا لو گل سودی ہے گلاب
شرم و غصہ ہے عرق میں وہ ہیں تر آج کی رات

آسماں پر ہے دماغ اب نہیں ملنے کے نسیمؔ
مہرباں ان پہ ہے اک رشک قمر آج کی رات


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.