میاں صبر آزمائی ہو چکی بس
میاں صبر آزمائی ہو چکی بس
ملو اب بے وفائی ہو چکی بس
بہار خود نمائی ہو چکی بس
جہاں چھوٹی ہوائی ہو چکی بس
یہی ہے اس کی گر بیگانہ وضعی
تو ہم سے آشنائی ہو چکی بس
بھروسا کیا ہمارا اشک کی بوند
جہاں مژگاں پر آئی ہو چکی بس
پھنسے صیاد کے پھندے میں بے طرح
ہماری اب رہائی ہو چکی بس
نہ مل حجام رخسار اس کے ہر دم
منڈایا خط صفائی ہو چکی بس
ادا میں واں ادا نکلیں ہیں لاکھوں
میں سمجھا بے ادائی ہو چکی بس
دلا مت دیدۂ خوں بار کو پونچھ
ہر اک انگلی حنائی ہو چکی بس
یہی درباں پہ ہے قدغن تو یارو
صبا کی واں رسائی ہو چکی بس
غزل اے مصحفیؔ یہ میرؔ کی ہے
تمہاری میرزائی ہو چکی بس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |