میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا

میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا
by عبدالرحمان احسان دہلوی

میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا
کیوں میری طرف دیکھ کے تلوار کو دیکھا

آنکھیں مری پھوٹیں تری آنکھوں کے بغیر آہ
گر میں نے کبھی نرگس بیمار کو دیکھا

دیکھے نہ مرے اشک مسلسل کبھی تم نے
اپنی ہی سدا موتیوں کے ہار کو دیکھا

اتوار کو آنا ترا معلوم کہ اک عمر
بے پیر ترے ہم نے ہی اطوار کو دیکھا

دیکھا نہ کبھو کوچۂ دل دار کو رنگیں
بس ہم نے بھی اس دیدۂ خوں بار کو دیکھا

اس میں بھی در اندازوں نے سو رخنے نکالے
احساںؔ نے جو اس رخنۂ دیوار کو دیکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse