میری رفعت پر جو حیراں ہے تو حیرانی نہیں

میری رفعت پر جو حیراں ہے تو حیرانی نہیں
by سیماب اکبرآبادی

میری رفعت پر جو حیراں ہے تو حیرانی نہیں
تو ابھی انسان کی عظمت کا عرفانی نہیں

اور یہ کیا ہے ضبط جو سوز پنہانی نہیں
آگ روشن دل میں ہے چہرے پہ تابانی نہیں

پھول کے پتے بکھر کر اک فسانہ کہہ گئے
جس کی ہو ترتیب ممکن وہ پریشانی نہیں

مجھ پر اک الزام ہے قید قفس وہ بھی غلط
جس کی نیت میں ہو آزادی وہ زندانی نہیں

جوش گریہ اس پر آہوں کی یہ سیلابی ہوا
کون سی ہے موج اشک ایسی جو طوفانی نہیں

راز یہ مجھ پر شکست غنچہ و گل سے کھلا
حسن بھی تو بے نیاز چاک دامانی نہیں

خواہشوں کے ساتھ اپنے نفس کو بھی کر فنا
زندگی میں اس سے بہتر کوئی قربانی نہیں

اتفاقات محبت نے یہ ثابت کر دیا
وہ بھی پیشانی میں ہے شاید جو پیش آنی نہیں

دولت کونین سے بھی ہے گراں تر اک سکوں
دل ہو مستغنی تو پروائے جہاں بانی نہیں

جاودانی ہوں میں اے دنیا پرستش کر مری
یہ مسلم ہے کہ تو فانی ہے میں فانی نہیں

حوصلوں کے ساتھ طے کر راہ دشوار حیات
حل تو ہوں گی مشکلیں لیکن بہ آسانی نہیں

دیکھ اے ساقی قناعت کی طرب افشانیاں
آب کوثر ہے کٹورے میں مرے پانی نہیں

ہے مری نظروں میں انجام بہار گلستاں
اب مرے سر میں ہوائے گل بدامانی نہیں

بہہ چکا ہے خون پانی کی طرح انسان کا
معتدل پھر بھی مزاج عالم فانی نہیں

کر نہ اے کنج لحد زحمت مرے آرام کی
میں مجاہد ہوں مجھے خوئے تن آسانی نہیں

کر رہا ہوں نظم اے سیمابؔ قرآن مجید
اور یہ کیا ہے اگر تائید یزدانی نہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse