میری طرف سے کچھ تو ترے دل میں چور ہے

میری طرف سے کچھ تو ترے دل میں چور ہے
by سعادت یار خان رنگین

میری طرف سے کچھ تو ترے دل میں چور ہے
میں نے سمجھ لیا تو دوگانا گھنور ہے

اتنا بڑا ہے منہ اک آتوں کی ناک پر
جتنی بڑی ددا مری انگلی کی پور ہے

روئے ذرا جو دادا تو دائی ہو بے قرار
دائی ہے مورنی تو مرا دادا مور ہے

منہ ڈھانپ کر نہ رو یہ چھلوری نہیں موئی
اے کوکا تیری انگلی کی پکی یہ پور ہے

ایسی گلے میں جالی کی کرتی ہے دائی کے
جیسی بری پڑی مری میانی کی طور ہے

ہے میرا چلنا پھرنا دوگانا کے اختیار
یہ جان لو کہ میں ہوں چکئی وہ ڈور ہے

صدقے زناخی میرے میں قربان اس کی ہوں
ہم میں چکئی ایک ہے اور ایک ڈور ہے

شاید کہ ہو گیا ترا میٹھا برس شروع
کوکا کچھ ان دنوں تری چاہت کا شور ہے

تیری قسم گنواری اسے جانتی ہوں میں
لونڈی کو رنگیںؔ جو کوئی کہتی بندور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse